بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد کرتے ہوئے آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کے ہندو انتہا پسند مودی سرکار کے 5اگست 2019ء کے فیصلے کو جائز قرار دیدیا ۔ عدالت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ستمبر 2024میں انتخابات کرانے اور مقبوضہ وادی کی ریاستی حیثیت جلد ازجلد بحال کرنے کا حکم دیدیا ۔ ا س میں ریا ست جموں وکشمیر کو جموں ، کشمیر اور لداخ کے علیحدہ علیحدہ ریجن میں تقسیم کرنے کا فیصلے کو بھی چیلنج کیاگیاتھا۔ بھارت نے اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اس خطے کو بھارت کے ساتھ وفاق میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے بیان میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کا فیصلہ صرف قانونی فیصلہ نہیں ، امیدکی کرن اور روشن مستقبل کا وعدہ ہے ۔ آج کا فیصلہ مضبوط، زیادہ متحدبھارت کی تعمیر کا ہمارے اجتماعی عزم کا عہد ہے ۔ مودی سرکار اس مو قع پر اتنا خوف زدہ تھی کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی مقبوضہ کشمیر کے اپنے سابق وزرائے اعلی ٰمحبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کو نظر بند کر دیا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے کیلئے بھارتی فوجیوں کی بھاری تعداد تعینات کردی گئی ۔ 1947میں انڈیا کی تقسیم کے بعد انڈیا اور پاکستان کے وجود میں آتے ہی جموں کشمیر کا مسئلہ جہاں دوملکوں کے بیج متنازع بن گیا۔، وہیں کشمیر اور انڈیا کے درمیان تعلقات کا مسئلہ بھی پیداہوگیا۔ اس وقت کشمیر کے حکمران مہارا جہ ہری سنگھ انڈیااور پاکستان دونوں سے آزاد رہنا چاہتے تھے لیکن پاکستان کے قبائیلی حملہ آوروں کی دراندازی کے بعد مہارا جہ ہری سنگھ نے انڈیا سے فوجی مدد مانگی جسکے عوض انھوں نے انڈیا کے ساتھ الحاق کیا ۔ الحاق کے تحت انڈیا کو جموں کشمیر میں ڈیفینس، کمیونکیشن اور کرنسی کے بارے میں قانون سازی کا اختیار تھاباقی سبھی شعبوں میں جموں کشمیر خود مختار تھا۔ اس معاہدہ کی ذیل میں انڈین آئین میں دفعہ 370کو شامل کیا گیا۔ اسکا مطلب یہ تھا کہ جموں کشمیر کا اپنا آئین ہوگا اور علیحدہ پرچم ہوگا جو انڈین پرچم کے ہمراہ لہرایا جائے گا اور جموں کشمیر کے مستقبل باشندے ہی یہاں زمین کی ملکیت اور نوکریوں کے اہل ہوں گے۔ بی جے پی نے اس آئینی ارینجمنٹ کی مخالفت کی تھی اور عزم کیاتھا کہ اقتدارمیں آتے ہی جموں کشمیر کو مکمل طو ر پر انڈیا کے وفاقی نظام میں ضم کیا جائے گا۔
مسئلہ کشمیر تقسیم ہند سے چلا آرہا ہے اور کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے مابین چار جنگیں بھی ہو چکی ہیں ۔ پہلی جنگ 1947ء دوسری جنگ 1965ء تیسری 1971ء اور چوتھی 1999ء میں کارگل کے محاذ پر لڑی گئی۔ اسکے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر سے ملحق پاکستان کے سرحدی علاقے جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر گولہ باری کا تبادلہ بھی ہوتا رہتاہے۔مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادیں بھی موجود ہیں، پہلی پاک بھارت جنگ کے بعدبھارت کے وزیر اعظم اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گئے ۔ اقوام متحدہ کی 13اگست 1948ء کی قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت دونوں اپنی فوجیں کشمیر سے نکالیں گے اور اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اس خطے میں ریفرنڈم ہو گا ۔ پاکستان نے یہ مطالبہ منظور کیا ،بھارت بعد میں مکر گیا۔
5اگست2019ء کو بی جے پی کی حکومت نے بل 370منظور کیا گیا جسکی روسے جموں کشمیر انڈیا کی دوسری ریاستوں کی طرح اسکا حصہ بن گیا ۔ اس بل کے تحت جموں کشمیر سے لداخ کو الگ کر کے دونوں کو مرکز کے انتظام والے دوخطوں میں بدل دیا گیا۔ اس تبدیلی پر چین اور پاکستان نے سخت ردعمل دیا بھارت کے بعض لیڈروں اور رضاکاروں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ، جسکا گزشتہ دنوں فیصلہ سنا دیا گیا ۔ بھارت کوعالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقے میں اس قسم کے اقدامات کا کوئی اختیار نہیں ، پاکستان ان یکطرفہ اقدامات کو تسلیم نہیں کرتا۔ تاہم معاملے کی حساسیت کا تقاضاہے کہ پاکستان صرف رسمی بیان تک محدود نہ رہے اقوام متحدہ کے فورم پر اس معاملے کو اٹھانا اورعالمی برادری پر اپنی تشویش کا اظہار بھی ضروری ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ مقبوضہ کشمیر کی علاقائی حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے اور اس متنازع علاقےکو بھارتی وفاق کے زیر انتظام علاقوں کی فہرست میں شامل کرنے کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیری آباد کاری اور سرمایہ کاری کے نام پر اس متنازع علاقے میں ترقیاتی سرگرمیوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر پراپنی گرفت کو مضبوط کرنا ہے ۔ بھارت نے پچھلے چند ماہ کے دوران تیزی کے ساتھ فوجی حکمت عملی پر کام جاری رکھا ہوا ہے حتیٰ کہ ہندو شہریوں کونان اسٹیٹ ایکٹر فورسز کے طور پر تیار کیاجارہا ہے جن کو سخت جان فوجی تربیت دے کر اسلحہ تقسیم کیاگیا تاکہ جنگ کی صورت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے یہ انتہا پسند ہندو کارکن فوج کے شانہ بشانہ لڑیں اور بوقت ضرورت حریت پسندوں سے بھی نمٹ سکیں۔
اس طرح سکھ علیحدگی پسند تحریک کے خلاف کارروائیوں میں بھی تیزی دکھائی دیتی ہے ۔ ہر قسم کے حالات سے تیار رہنے کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ مودی کے فاشزم کی سزا پورے خطے کے عوام کوملے ۔ بھارت میں کروڑوں ہندو انتہا پسند اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی پر امید ہیں کہ 2024ء میں جب مودی نئے انتخابات میں جائیں گے، اس سے پہلے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر چڑھائی کرکے اسے بھی حاصل کر لیں گے۔ اسی طرح کے خیالات جموں کے راجیوڈوگرہ کے ہیں ، وہ کہتے ہیں’’جب تک مودی ہیں تب تک سب کچھ ممکن ہے ۔ وہ کشمیر اور گلگت بلتستان اپنے وعدے کے مطابق واپس حاصل کرکےدکھائیںگے،ورنہ ہم انہیں معاف نہیں کریںگے‘‘پاکستان کی افواج اور آزاد کشمیر کی حکومت کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔