حضرت فاروق اعظمؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے ادوار کو تصور میں لایئے کہ ان کی خارا شگاف تلواروں نے مسلمانوں کے قبلہ اول کو امن و امان اور صلح و سلامتی کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ پھر کیا ہوا کہ وہی یہودی جو عیسائیوں کے خون کے پیاسے تھے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے اور ان کا گٹھ جوڑ یہ رنگ لایا کہ فرندان اسلام انکی خونیں آنکھوں میں کھٹکنے لگے اور پھر انگریزوں نے انتہائی شاطرانہ چال یہ چلی کہ فلسطین میں ایک یہودی نوآبادی قائم کرنے کا مذموم ارادہ کرلیا۔یہودی ،جو خود کو اللّٰہ تعالیٰ کی چیندہ وچہیتی قوم کہلاتی ہے اور جو اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حکم عدولیاں کرتی رہی ہے،جیسا کہ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم کو اے قوم! یاد کرو، احسان اللّٰہ کا اپنے اوپر، جب پیدا کئے تم میں نبی اور کردیا تم کو بادشاہ اور دیا تم کو جو نہیں دیا کسی جہان میں۔ اے قوم! زمین پاک میں جو لکھ دی ہے اللّٰہ نے تم کو، اور الٹے نہ جائو اپنی پیٹھ پر جا پڑو گے نقصان میںoبولے، اے موسیٰ! وہاں ایک لوگ ہیں زبردست اور ہم ہر گز وہاں نہ جاویں گے جب تک وہ نکل چکیں وہاں سے۔پھر اگر وہ نکلیںوہاں سے تو ہم داخل ہوں گےo کہا دو مردوں نے ڈروالوں میں سے، خدا کی نوازش تھی ان دو پر، پیٹھ جائو (گھس جائو) ان پر حملہ کرکر دروازے میں۔ پھر جب تم اس میں پیٹھو، تو تم غالب ہو اور پھر اللّٰہ پر بھروسہ کرو، اگر یقین رکھتے ہو oبولے، اے موسیٰ! ہم ہر گز نہ جاویں ساری عمر جب تک وہ رہیں گے اس میں، سو تو جا اور تیرا رب، دونوں لڑو، ہم یہاں ہی بیٹھے ہیںo‘‘۔ (القرآن ، ترجمہ از حضرت شاہ عبدالقادرؒ)
یہ وہی صہیونی قوم ہے جو اللّٰہ کے بھیجے ہوئے پاک پیغمبرؑ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے یہ کہتی رہی ہے کہ ہم یہیں بیٹھے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام خود جا کر لڑیں۔
قرآن پاک کی آیات پڑھتے ہوئے آج بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت یہودی قوم اللّٰہ کے پاک پیغمبرؑ سے کہتی تھی کہ آپ جا کر لڑیں اور اب اپنے حماس شیروں کے راکٹوں اور میزائلوں کی گرج سن کر اپنے کمانڈروں سے کہہ رہی ہے۔ ’’تم ہی لڑو، ہم نہیں لڑ سکتے‘‘۔
بات شروع ہوئی تھی یہودی نو آبادی کی۔ اس کی پشت پر برطانیہ اپنے پورے لائو لشکر کے ساتھ کھڑا تھا۔ اللّٰہ تعالیٰ کا غیظ و غضب دیکھئے کہ یہودی قوم جو در در کی خاک چھانتی پھرتی رہی ہے، انہیں فلسطین میں بسانے کیلئے روئے زمین سے ان سنپولیوں کو استعماری چمٹیوں سے چن چن کر یہاں لایا گیا۔
ذرا سوچیں کہ صہیونی ریاست سے قبل فلسطین میں یہودیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ مغربی طاقتوں کی ابلیسانہ چال دیکھئے کہ آہستہ آہستہ فلسطینی مسلمانوں کی زمینیں یہودیوں کے واسطے اونے پونے داموں ہتھیائی گئیں۔ اس ابلیسی چال کا مقصد یہ تھا کہ خطہ فلسطین ایک ایسی خوفناک صہیونی توپ کی شکل اختیار کر جائے جس کا منہ ہر وقت مسلم ممالک کی جانب کھلا رہے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ یہ صہیونی توپ مسلمانوں پر شعلے اگلتی رہی۔اسرائیلی فوج نہتے، بے بس اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر جو خوفناک مظالم ڈھاتی چلی آئی ہے ان کے لئے ظلم و بربریت، قہر و جبر، جورو استبداد، حتیٰ کہ لغت میں ظلم و ستم کے جتنے بھی الفاظ ملتے ہیں وہ ان کا مفہوم بیان کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر کسی پلید سے پلید، نجس سے نجس، خوں خوار سے خوں خوار جانوروں یا درندوں یا بھیڑیوں ہی سے پوچھا لیا جائے کہ میں اسرائیلی فوجیوں کے لئے تمہاری مثال دینا چاہتا ہوں ، تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا۔ یہ سب جانور بیک زبان کہہ اٹھیں گے ’’آپ اپنے الفاظ واپس لیں۔ یہ جانور کہیں گے کہ ان کے کرتوت دیکھے ہیں۔ جنگلی، وحشی، بدکار اور بدصفت جیسے الفاظ بھی ان کےکرتوتوں اور بدتمیزیوں کی وضاحت کے لئے قاصر ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے والوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ رمضان شریف میں جب مسلمان افطارکر رہے ہوتے ہیں تو اسرائیلی ان پر میزائل دےمارتے رہے ہیں۔ امریکہ کا یہ ناجائز بچہ اسرائیل بہت دلیر بنتا ہے۔ اس نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اس کے ابّے یعنی امریکہ کا ویت نام میں کیا حال ہوا تھا۔ افغانستان میں چالیس پینتالیس اپنے چاچوں ماموں کےہمراہ لائو لشکر کے ساتھ اترا تھا اور پھر باں باں کرتا رہا کہ مجھے عزت کے ساتھ یہاں سے نکالو۔ اب کمال یہ ہوا ہے کہ حماس کے شیروں نے اسرائیلی بھیڑیوں کی جو درگت بنائی ہے اور جو ان کا بھرکس نکالا ہے اس کے ساتھ یمن کے انصار اللّٰہ اور حوثیوں نے امریکہ جیسے بدمست ہاتھی کا نشہ اپنے میزائلوں سے ایسا ہرن کردیا ہے کہ اس کے جہاز بحر احمر میں لرزہ براندام ہیں۔ حماس اور حزب اللّٰہ کے شیروں نے اسرائیلی فوجیوں پر ایسے ایسے وار کئے ہیں کہ ایک ایک حملے میں سینکڑوں فوجی اور کمانڈر جہنم رسید کئے ہیں۔ اسرائیلی فوجوں کی بہادری ملاحظہ کیجئے۔ بھوکے پیاسے مسلمان بچوں، نہتے جوانوں، عورتوں اور بوڑھوں پر ٹینک اور بلڈوزر چڑھاتے ہیں۔ شجاعت اور بہادری کا پتہ چلتا ہے میدان جنگ میں۔ جب اسرائیلی فوجیوں سے کوئی پوچھے گا کہ تم کن سے لڑے ہو یا لڑ رہے ہو تو وہ یہی کہیں گے کہ ہم مکانوں، بلڈنگوں، عمارتوں، پلازوں، پارکوں، درختوں، دکانوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سے لڑے تھے۔ سننے والا ان اسرائیلی فوجیوں پر لعنت بھیجے گا۔ پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف جو جلوس نکل رہے ہیں وہ دراصل اسرائیلی مظالم پر اجتماعی لعنتیں ہیں۔ اسرائیلی فوجی خودکشیاں بھی کر رہے ہیں، ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اور پاگل ہوتے جا رہے ہیں اگرچہ وہ پہلے ہی پاگل ہیں۔ گزشتہ دنوں اسرائیلی اخبار نے ایک کارٹون شائع کیا تھا جس میں حماس کا ایک شیر اپنے ساتھی سے کہتا دکھایا گیا ہے ۔ ’’یار! تم چائے کا کپ پکڑنا، میں تین اسرائیلی فوجی ما ر کر آ رہا ہوں‘‘۔
اللّٰہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی