اب یہ کوئی’ پروجیکٹ ‘تھا یا نیا ’سیاسی رجحان‘ مگر 30 اکتوبر، 2011 کو ’مینار پاکستان‘جانے کا اتفاق ہوا تو لاتعداد نوجوان لڑکے لڑکیاں ہی نہیں بہت سے ایسے لوگ، فیملی والے بھی نظر آئے جنہوں نے اس سے پہلے کبھی کسی سیاسی اجتماع میں شرکت نہیں کی تھی۔ مجھے بہت سے پرانے سیاسی کارکن بھی نظر آئے جن میں سے کچھ کا خیال تھا کہ یہ ایک نیا سیاسی رجحان ہے جسے پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) جیسی تجربہ کار جماعتوں کو سمجھنا پڑے گا۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے عمران خان سے2006ءکے الیکشن کے وقت کی ہوئی گفتگو یاد آ گئی جو کراچی میں ڈاکٹر علوی کے گھر پر ہوئی تھی۔ وہ بہت خوش تھا اپنے جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت پر۔’’ تمہارا کیا خیال ہے ہمیں کتنی سیٹیں مل جائیں گی مہم تو زبردست چلی ہے‘‘۔ میں نے کہا ، ’’ عمران دیکھنا یہ ہے کہ یہ لوگ تمہیں سننےآئے تھے یا دیکھنے۔ سیٹیں دو چار مل جائیں تو غنیمت ہے باقی فیصلہ تو اصل سرکار نے کرنا ہے۔‘‘ اسے یقین نہ آیا اور کہتے ہیں جب وہ الیکشن سے پہلے جنرل پرویز مشرف سے ملنے گیا اور یہ آخری ملاقات ثابت ہوئی تو جنرل احتشام ضمیر کے ہاتھوں میں ایک فہرست تھی جس میں صرف عمران خان کا نام پی ٹی آئی کے آگے لکھا تھا وہ بھی میاں والی سے۔ یہ بات اس ملاقات میں شریک عمران کے ساتھ جانے والے اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل معراج محمد خان مرحوم نے مجھے خود بتائی۔آج اس بات کو کئی سال ہوگئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف جب وجود میں آئی تو ابتدا میں زیادہ تر سیاسی طور پر کم تجربہ کار لوگ تھے معراج بھی بعد میں آئے کسی حد تک نجیب ہارون، حامد خان اور چندایک اور مگر2011کے جلسے کے بعد پنجاب میں ایک ’ الارم‘ سا سنائی دینے لگا۔ مجھے یاد ہے ایک بار خواجہ سعد رفیق نے اپنی پارٹی اور میاں صاحب سے کہا، ’’ اس رجحان کو نظر انداز نہ کریں۔ جو آج کرکٹر عمران کو دیکھنے آئے ہیں کل اسکے سیاسی کارکن بھی بن سکتے ہیں۔‘‘ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے ایک بڑا سیاسی خلا پیدا کر دیا تھا۔2007 سے2013ءتک پی پی پی۔مسلم لیگ (ن) کے درمیان ’محبت اور جنگ والے تعلقات نے پی ٹی آئی کیلئے پنجاب میں راستے کھول دیے۔ عمران کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا تھا تاہم پارٹی میں آہستہ آہستہ دوسری جماعتوں کے لوگوں کی آمد شروع ہوگئی۔ عمران نئے آنے والوں سے بہت متاثر نظر آرہے تھے جن میں خاص طور پر جہانگیر خان ترین، علیم خان، پرویز خٹک وغیرہ ۔میں نے ایک بار نعیم الحق مرحوم سےجو عمران سے بہت قریب تھا کہا’ لگتا ہے پارٹی کو بھائی لوگوں نے گود لینا شروع کردیا ہے۔ وہ زور سے ہنسا اور کہا ’پارٹنر‘ کپتان کو نہیں سمجھ آرہا۔‘‘عمران سے2013ءمیں بڑی سیاسی غلطی عام انتخابات سے پہلے پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن کروانا تھی۔
جس میں واضح طور پر شاہ محمود قریشی اور ترین گروپ سامنے آئے۔ حامد خان نے دھاندلی کا الزام لگایا اور پھرعمران نے جسٹس وجیہہ الدین جو پی ٹی آئی کے چیئرمین الیکشن کمیشن تھے ، سے تحقیقات کو کہا تو بات ثابت ہوگئی کہ ’ دھاندلی بھی ہوئی اور پیسہ بھی چلا، اور انہوں نے الیکشن کو کالعدم قرار دیا مگر اس وقت خان نے ترین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ آج جب سپریم کورٹ میں حامد خان کو عمران کا دفاع کرتے اور ترین کوا س پر الزام لگاتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کاش خان اپنے پرانے ساتھی کی بات مان جاتا۔2013ءکے انتخابات میں پی ٹی آئی کو بڑی کامیابی ملی مگر حکومت مرکز میں نہیں بن پائی البتہ کے پی میں پہلی بار حکومت بنائی جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرکے۔ چار حلقے کھولنے کے مطالبہ کے بعد 124دن کے دھرنے تک کہ احتجاج کے پیچھے خاصی حد تک جنرل ظہیر اور جنرل پاشا جیسے لوگوں کا ہاتھ نظر آتا ہے جو عمران کووقت سے پہلے اقتدار دلانے سے زیادہ نواز شریف کو گرانا چاہتے تھےجبکہ عمران اور پی ٹی آئی کی مقبولیت تو بڑھ ہی رہی تھی۔ کراچی میں الطاف بھائی نے پریشانی میں اپنی ہی پارٹی پر چڑھائی کرڈالی۔ مجھے آج بھی یا د ہے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو گورنر پنجاب جناب محمد سرور نے خفیہ پیغام الطاف بھائی کیلئے دیا کہ دودن کیلئے کراچی بند کردیں میاں صاحب کی حکومت گئی۔ مگر یہ پیغام عشرت العباد نے جب لندن دیا توجواب آیا، ’’ جس کا پیغام ہے وہ خود مجھ سے بات کرے۔معاملہ گڑبڑ ہے‘‘۔
ایک طرف عمران کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا تھا مگر دوسری طرف بھائی لوگ اسے استعمال کرکے میاں صاحب پر دبائو بڑھا رہے تھے۔
عمران تیزی سے بہت آگے اور میاں صاحب بہت تیزی سے نیچے چلے گئے نقصان دونوں کا ہی ہوا ’سیاسی طور ‘ پر ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی بھی نقصان دہ ہوتی ہے۔ ’ پانامہ لیک‘ میاں صاحب کیلئے سیاسی بھونچال لایا اور اس نے ان لوگوں کا کھیل آسان کردیا جو میاں صاحب کو گرانا چاہتے تھے۔ دیوار پر لکھا سمجھ آرہا تھا اور یوں2018میں عمران کی حکومت بن گئی۔
اب عمران وزیر اعظم تھے ’ سب ہی توساتھ تھے، مگر پھر انہوں نے کئی غلط سیاسی فیصلے کیے مگر سب سے غیر سیاسی فیصلہ پنجاب میں عثمان بزدار کا لانا تھا۔2018ءسے2022ءتک گراف نیچے آرہا تھا۔ اپنے بھی ناراض تھے اور غیر بھی پھر انہیں خود اپوزیشن نے ’’ لائف لائن‘ دے دی ۔اب یہاں جنرل راحیل کی جگہ جنرل باجوہ تھے اور پاشا کی جگہ جنرل فیض آگئے ۔ خان صاحب فیض پر اعتماد کرتے رہے اور باجوہ صاحب نے میاں صاحب اور پی ڈی ایم کو استعمال کیا یوںعمران کا اقتدار توگیا مگر میاں صاحب کا گراف نیچے آنے لگا جس کی بڑی وجہ شہباز شریف رہے جو میاں صاحب کے ’بزدار‘ ثابت ہوئے۔ کمرتوڑ مہنگائی نے عمران کو سیاسی طور پر فائدہ اور میاں صاحب کو حددرجہ نقصان پہنچایا۔
آج ایک پرانے ’ پروجیکٹ‘ کو نیا بنانے اور دوسرے پروجیکٹ کو مکمل بند کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔2016میں میاں صاحب نااہل تھے 2024ءمیں عمران مگر مسلم لیگ(ن) موجود تھی۔ آج نہ عمران برداشت ہے نہ بلا نہ پی ٹی آئی اور یوں2024ءکا الیکشن مائنس۔ ٹو کے پروجیکٹ کے ساتھ تیار ہورہا ہے۔ ایسا کھیل جاری ہے کہ کپتان کیلئے کوئی راستہ نہ رہ پائے۔ آخری امید سپریم کورٹ تھی مگر جہاںپوری تاریخ ہی ’ داغ دار‘ رہی ہو وہاں ’ نظریہ ضرورت‘ والے فیصلے نہ بھی ہوں مگر نتائج کچھ ویسے ہی آتے ہیں ورنہ چار مارشل لا نہ لگتے۔عمران الیکشن سے باہر کردیاگیا اور پارٹی بھی یعنی ان کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کرپایا۔ لہذا ’بلا‘ بلا مقابلہ ہی رہا۔