• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی کے انتخابی نشان ’بلّے‘ کے ساتھ کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا ، اس پر بات کرتے ہیں مگر پہلے سیاق و سباق درست کر لیں۔سنا جاتا ہے کہ جس دن نواز شریف کی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف کیس شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اسی روز نواز شریف کو وزیرِ اعظم کے دفتر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکالنے کا عہدصمیم کر لیا گیا تھا،پھر مشرف کو راحیل شریف بہ صد حفاظت ملک سے کیسے نکال کر لے گیا، اور نواز شریف پر کیا بیتی، یہ ہماری داغ داغ تاریخ کا حصہ ہے۔ جسٹس وقار سیٹھ کی عدالت نے جب مشرف کو آئین شکنی کا مرتکب اور غدار قرار دیا تو اسی روز حکومت اور محکمے کے نمائندوں نے ٹی وی اسکرینوں پر تڑپنے پھڑکنے کا مظاہرہ کیا اور وقار سیٹھ کو فاتر العقل قرار دیا ، پھر لاہور ہائی کورٹ کے ججوں مظاہر نقوی اور امیر بھٹی نے وقار سیٹھ کی عدالت کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔عرض یہ ہے کہ مشرف کو سزا دینے کا مطلب تھا کہ ایک اصول طے ہونے جا رہا تھا، آئندہ کوئی اس ملک میں آئین شکنی کا سوچے بھی ناں ورنہ غدار قرار پائے گا، اور اگر حالات موافق ہوئے تو پھانسی کے پھندے پر جھول جائے گا ، فریقین اس کی حساسیت جانتے تھے، سو تلواریں بے نیام ہو گئیں۔نتیجہ یہ تھا کہ سال ہا سال سپریم کورٹ نے اس ضمن میں استدعا سننے کی جرات ہی نہ کی، ایک کے بعد ایک چیف جسٹس کسی طاقت ور کو ناراض کیے بغیر، آرام سے نوکری کرتا چلا گیا۔

آگے چلیے، ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے 32 سال بعد، 2011ءمیں صدر آصف علی زرداری نے ایک درخواست داخل کی، جس پر ایک آدھ سماعت بھی ہوئی، مگر پھر اگلے بارہ سال کے دوران قریباً نصف درجن چیف جسٹس آئے لیکن کسی ’عادل‘ کو یہ توفیق ارزاں نہ ہوئی کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم کے قتل کا لفظ بھی اپنی زبان پر لائے، کیا ضرورت تھی طاقت وروں سے الجھنے کی ؟اور آگے بڑھتے ہیں۔فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل کر دی گئی، اور پھرلگ بھگ پانچ سال وہ اپیلیں سنی ہی نہیں گئیں، لہذا فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عمل درآمد بھی نہ ہو سکا۔یاد رہے کہ اس کیس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جو ’غیر سیاسی‘ افراد سیاست میں حصہ لیتے ہیں ان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہونا چاہیے۔ در اصل ان تمام کیسز کا مرکزی نکتہ یہی ہے، آئین اور قانون کی بالادستی کے اقرار میں ہماری بقا ہے، آئین کی بے حرمتی کرنے والے اس مملکت کی اساس پر کلہاڑی چلا رہے ہیں، اگر ہم اپنے پیارے وطن کو بچانا چاہتے ہیں تو اسی کلہاڑی سے آئین شکنوں کا سر قلم کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ ان میں سے کوئی بھی کیس کسی پلاٹ کو کمرشل کرنے، کسی بلڈنگ کو گرانے، یا کسی عمارت کو قانونی قرار دینے سے متعلق نہیں ہے۔ یہ آئین اور عوام کی بالا دستی کے کیس ہیں، یہ آئین اور عوام کو ان کی طاقت لوٹانے کے کیس ہیں۔ کب بیٹھا تھا آخری دفعہ فل کورٹ، کچھ یاد ہے؟ کیوں نہیں بیٹھتا تھا سپریم کورٹ کا فل بنچ؟ کیوں کتراتے تھے ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد اور عطا بندیال فل کورٹ سے؟اس لیے کہ ’مطلوبہ‘ فیصلے کے لیے صرف جج نہیں بلکہ ’ہم خیال‘ جج درکار ہوتے ہیں۔ یہ بنچ بنانے کا اختیار تھا جس سے پوری عدلیہ کوکنٹرول کیا جاتا تھا، بلکہ پورے سیاسی نظام کو نکیل ڈالی جاتی تھی، پانچ ’فاضل‘ جج بیٹھ کر کروڑوں لوگوں کے منتخب وزیرِ اعظم کو کان سے پکڑ کر دفتر سے نکال دیتے تھے، آئین کی ایسی تشریح کرتے کہ مرکزِ درمانِ دیوانگاں کے مکین بھی مسکرا دیں۔ہم تو پارلیمان کی بے توقیری کے عادی ہو چلے تھے، تین جج پوری پارلیمان کا بنایا قانون پھاڑ کر پھینک دیتے تھے، یعنی کروڑوں ووٹروں کا تمسخر اڑایا جاتا تھا اور ان کی اجتماعی دانش کی تو ہین کی جاتی تھی۔ سپریم کورٹ سے ہماری جتنی جائز شکایات ہیں ان کا خلاصہ یہاں لکھ دیا ہے، اگر یہ سب کجیاں ایک درجن چیف جسٹس مل کر چالیس سال میں دور کر دیتے تو ملک پٹری پر چڑھ جاتا، جج، جرنیل اور سیاست دان اپنے اپنے آئینی منطقے میں سرگرم رہتے اور ہم اپنی اعلیٰ عدلیہ سے خوش ہو جاتے۔ یہ سب تو نہ ہو سکا اور ہم بھی امید ہار چلے تھے، مگر پھر یک بارگی ایک معجزہ ہو گیا۔ سپریم کورٹ میں بنچ بنانے کا اختیار فردِ واحد سے چھن گیا، عدلیہ نے پرویز مشرف کو سزا دی، بھٹو کا کیس سنا، جسٹس شوکت صدیقی کی شنوائی ہوئی، پارلیمان کی فضیلت تسلیم کی گئی، پہلی دفعہ عدلیہ کی کالی، کرپٹ بھیڑوں کا احتساب آغاز ہوا، اور اس کے سوا بہت کچھ۔ اور یہ سب کچھ چار ماہ میں ہوا، اور ایک ہی چیف جسٹس کے عہد میں ہوا۔ یہ ہے قاضی فائز عیسیٰ کا مختصر سا تعارف۔اب آ جائیے بلّے کے نشان پر۔ آپ نے براہِ راست کیس دیکھا، سنا؟ نہیں دیکھ پائے تو یو ٹیوب پر جا کر دیکھیے۔ پی ٹی آئی کے وکلاء نے ججوں سے زبردستی یہ فیصلہ لیا ہے، اور مسئلہ وکلاء کا بھی نہیں ہے، پارٹی کے پاس الیکشن کمیشن کے ڈھائی سالہ نوٹسز کے جواب میں کوئی تیاری ہی نہیں تھی، کوئی کاغذ ہی نہیں تھا، اور شاید پی ٹی آئی میں الیکشن کروایا ہی نہیں گیا ، یعنی جعلی الیکشن بھی نہیں کروایا گیا۔یہ سچ ہے کہ قانون کے مطابق تو یہی فیصلہ کیا جا سکتا تھا، ہاں آئین کی تشریح میں کوئی نقطہ نظر اختیار کیا جاتا تو وہ الگ بات تھی۔

بہرحال،یہ تو ممکن ہے کہ آپ کو قاضی کا کوئی فیصلہ پسند نہ آئے لیکن اگر اس کے نتیجے میں آپ قاضی کی Integrity پر شبہ کریں گے تو یا آپ اجہل ہیں یا بدنیت۔۔۔Take your pick

تازہ ترین