• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات اگرچہ بعض واقعات کے ناگوار تاثر اور بیانات کے غیرمحتاط انداز کے باوجود خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہے تھے مگر 13فروری کو کراچی میں پولیس کی بس پر 25کلو بارودی مواد سے کیا گیا ریموٹ کنٹرول حملہ ان کے لئے فوری دھچکے کا باعث بنا ہے۔ اس واقعہ میں 13 کمانڈوز شہید اور 57زخمی ہو گئے۔ طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی اور یہ دھمکی بھی دی کہ جب تک صوابی اور پشاور میں ان کے ساتھیوں کو مارا جاتا رہے گا وہ حملے کرتے رہیں گے۔ انہوں نے حملے جاری رکھنے کے حق میں یہ جواز بھی پیش کیا ہے کہ ابھی فریقین میں سیز فائر کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا۔ اس کے لئے ان کا مطالبہ ہے کہ پہلے حکومت جنگ بندی کا اعلان کرے۔ غیرطالبان قیدیوں کو رہا کرے اور وزیرستان سے فوج واپس بلائے۔ باہمی بداعتمادی میں اضافہ ایک غیرملکی خبرایجنسی کو طالبان ترجمان کے اس انٹرویو سے بھی ہوا جس میں انہوں نے کچھ ایسی باتیں بھی کہہ ڈالیں جو مذاکرات کے ماحول کو پراگندہ کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس حوالے سے عمومی تاثر یہ ہے کہ پاکستان کے لئے بطور امیر یا اسی نوع کے دیگر مناصب کا نام استعمال کرکے بعض مخصوص شخصیات کا قطعیت کے ساتھ ذکر کرنا آئین پاکستان کی نفی کے مترادف ہے جبکہ حکومت کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ مذاکرات صرف آئین کے دائرے کے اندر ہونگے۔ جب سے مذاکرات شروع ہوئے ہیں۔ صرف پشاور میں طالبان طرز کے 16 حملے ہو چکے ہیں جن میں درجنوں بے گناہ مرد عورتیں اور بچے شہید ہو گئے۔ طالبان نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کر کے مذاکرات پر ان کے منفی اثرات زائل کرنے کی کوشش کی مگر کراچی کے سنگین واقعہ کی ذمہ داری قبول کر کے اس اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے جو مذاکرات کی کامیابی کے لئے فریقین فطری طور پر بعض امور میں ایک دوسرے پر کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے تخریب کاری اور بم دھماکوں کے ان واقعات پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا تاثر یہ ہے کہ مذاکرات اب اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ اس پس منظر میں مذاکرات کے لئے قائم حکومتی کمیٹی نے طالبان کمیٹی کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ طالبان کی جانب سے پرتشدد کارروائیاں فوری طور پر بند کی جائیں کیونکہ ان سے مذاکرات کے ماحول پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ حکومتی کمیٹی نے صدر وزیراعظم آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے طالبان کمیٹی کی ملاقات کو حالات کی بہتری سے مشروط کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے عوام قتل و غارت اور خوف و ہراس کے موجودہ ماحول سے تنگ آ چکے ہیں۔ حکومت اور طالبان کے مذاکرات کا انہوں نے اس توقع کے ساتھ خیرمقدم کیا تھا کہ ملک میں خون خرابہ بند ہو۔ سیز فائر ہو، دھماکے ختم ہوں اور امن قائم ہو۔ یہ مقصد حکومت اور طالبان کی کمیٹیوں کے درمیان پہلے رابطہ میں ہی حاصل ہو جانا چاہئے تھا۔ طالبان نے شروع میں اچھی نیت کا اظہار کیا۔ حکومت نے بھی خیرسگالی کے جذبے سے کام لیا اور مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ابتدائی اقدامات کئے مگر دہشت گردی کی کارروائیوں نے ماحول میں تلخیاں گھولنا شروع کیں اور کراچی کے واقعہ نے مذاکرات کے عمل کو مزید مشکل بنا دیا۔ مذاکرات شروع ہونے کے بعد سیکورٹی فورسز کی جانب سے ایسی کوئی کارروائی منظر عام پر نہیں آئی جو طالبان کے منفی ردعمل کا باعث بنتی۔ انہوں نے وزیرستان میں فضائی کارروائیاں بھی روک دی ہیں۔ اس کے بعد بھی طالبان کے کچھ تحفظات ہیں تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حکومت ،عوام اور سیکورٹی فورسز کے تحفظات ان سے زیادہ سنگین ہیں۔ مذاکراتی کمیٹیاں انہی تحفظات کو سمجھنے اور انہیں دور کرنے کے لئے قائم کی گئی ہیں۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ امن کا قیام ہے۔ پیش آمدہ مشکلات کے باوجود حکومت اور طالبان کو سنجیدگی اور نیک نیتی سے امن کی جانب قدم بڑھانے چاہئیں اور ایک دوسرے کا اعتماد بحال کرنے کے لئے صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں امن ہی سب سے بڑا تحفہ ہے جو عوام کو دیا جا سکتا ہے اور اس کے لئے انہیں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے۔

سہ فریقی کانفرنس سے توقعات
انقرہ میں ترکی، پاکستان اور افغانستان کی سربراہی کانفرنس نے پورے خطے کے لئے بہتر مستقبل کے امکانات روشن کیے ہیں۔ گزشتہ روز کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں ترکی اور پاکستان کی جانب سے افغان امن عمل میں مؤثر کردار ادا کرنے پر اتفاق کے نتیجے میں توقع کی جاسکتی ہے کہ پروگرام کے مطابق اس سال بیرونی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان کو کسی نئے بحران کا شکار ہونے سے محفوظ رکھا جاسکے گااور افغانستان کی تعمیر نو میں یہ اتحاد کلیدی کردار ادا کرے گا۔کانفرنس کے بعد ترکی اور افغانستان کے صدور عبداللہ گل اور حامد کرزئی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی جانب سے خطے میں امن عمل کے لئے افغانستان کے فارمولے کی حمایت کا اعلان امن عمل کو آگے بڑھانے میں یقینا معاون ہوگاجبکہ صدر کرزئی کی طرف سے افغانستان میں مقیم طالبان رہنماؤں کو اپنے ملک سے نکالنے کی یقین دہانی پر عمل سے پاکستان میں قیام امن میں مدد ملے گی کیونکہ یہ لوگ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے سربراہوں کی جانب سے اس کانفرنس میں باہمی غلط فہمیوں کے دور ہوجانے کا اعلان بہت حوصلہ افزا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو آنے والے دنوں میں پاکستان اور افغانستان ترکی کی شرکت کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر شانہ بشانہ پیش قدمی کرسکتے ہیں۔کانفرنس میں پاکستان، ترکی اور افغانستان کے درمیان مال بردار ٹرین کی پٹری بچھانے کی تجویز نے عملی شکل اختیار کرلی تو تینوں ملکوں کے تجارتی روابط کے انتہائی مستحکم ہوسکیں گے اور باہمی تجارت کا حجم بڑھانے میں بڑی مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی عالمی برادری سے یہ اپیل کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے منظم انخلاء کا اہتمام کیا جائے اور اس عمل میں خطے کی سلامتی اور استحکام کا خیال رکھا جائے، بہت اہم اور بروقت ہے۔ تاہم اسے یقینی بنانے کے لئے تینوں ملکوں کو عالمی سطح پر مشترکہ کوشش کرنی ہوگی تاکہ اس جنگ زدہ خطے میں نئے بحران جنم نہ لینے پائیں اور تعمیر نو کا سفر مکمل امن و سلامتی کے ساتھ شروع کیا جاسکے۔

کرپشن ناقابل قبول
چیئرمین نیب قمرالزمان چوہدری نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کے دوران واضح کیا ہے کہ نیب نے اپنی ’’پکڑو اور سزا دو ‘‘پالیسی کے ساتھ اب کرپشن سے پیشگی بچائو اور آگہی کو بھی اپنا نصب العین بنا لیا ہے کیونکہ ہمارا مقصد محض لوگوں کو سزا دینا نہیں بلکہ لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نیب آرڈیننس کے ذریعے کرپشن کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کئے گئے ہیں اور حالیہ برسوں میں انہی کی وجہ سے 31 جنوری 2014ء تک خوردبرد کی گئی 258.716 ارب روپے سے زائد رقم رضا کار انہ اور پلی بارگین کے ذریعے حاصل کی گئی اور اس کام پر اب تک گیارہ ارب روپے کے اخراجات ہوئے ہیں۔ مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ اگرچہ بعض بااثر افراد کی طرف سے مختلف سرکاری اخراجات کی مدوں میں ہیر پھیر کے ذریعے قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ کا عمل جاری ہے تاہم ان بااثر افراد کو کرپشن سے روکنے کے لیے کام کرنے والے نیب جیسے ادارے بھی اپنا کام پوری مستعدی سے انجام دے رہے ہیں اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ سابق دور حکومت میں مملکت کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخصیت کے خلاف متعدد مقدمات عدالتو ںمیں زیر سماعت ہیں جبکہ ایک سابق وزیراعظم پانچ مرتبہ شامل تفتیش ہوچکے ہیں اور موجودہ وزیراعظم کے خلاف کیسوں کا مرحلہ عدالت میں ہے اور جب اس پر فیصلہ آجائیگا تو اس پر بھی قانون کے مطابق عمل کیا جائیگا۔ قومی احتساب بیورو کی اس سرگرمی سے اگر کھربوں روپے کی لوٹی ہوئی قومی دولت کو واپس لایا جاسکتا ہے اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اس کی جدوجہد سے پاکستان میں کرپشن کا گراف 10 درجے نیچے آگیا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں موجود دیگر احتسابی ادارے بھی اسی جذبے سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کمربستہ ہو جائیں اور انہیں اس بارے میں مکمل طور پر فری ہینڈ دیا جائے تو ملک کے تمام اداروں سے کرپشن کا مکمل خاتمہ کرنا کسی طرح غیر ممکن نہیں۔
تازہ ترین