• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

ساتویں صدی ہجری بر صغیر کا نہایت پُر آشوب دور رہا ہے۔ تاریخ کے اس دور میں پورا ہندوستان جاں گسل اور خطرناک حالات سے دوچار تھا ۔ ہر طرف انتشار اور نفسانفسی کا دور دورہ تھا۔ شرک اور بت پرستی ، ذات پات کی تقسیم ،انسانوں کے درمیان اونچ نیچ کی آگ میں پورا برصغیرگویا جہنم بنا ہوا تھا۔ دوسری طرف عالم اسلام اور مسلم ممالک میں بھی کشت و خون کا بازار گرم تھا، منگولوں کی بربریت عام تھی۔ عدل و انصاف سے خوشحال و آباد اور سر سبز و شاداب علاقوں میں نا انصافی اور ظلم و زیاتی کی باد خزاں سے ویرانی و بربادی کے سائے گھنے سے گھنے ہوگئے تھے۔

مسلمان بحیثیت ملت اسلامیہ بدترین تقسیم ، فکری انتشار اور تعلیمات قرآن و سنت سے دور ہو کر افسوسناک فرقہ واریت کی نذر اور تقسیم در تقسیم کے فطری عمل کے باعث اپنی شان و شوکت اور قوت و سطوت سے محروم ہو چکے تھے۔ مسلکی و مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات نے بر بریت و بے رحمی کو اس حد تک پروان چڑھا دیا کہ مسلمان ایک دوسرے کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے۔ مذہب بےزار منکرین وجود الہٰی نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ 

ایسے تاریک ماحول میں اللہ کی رحمت اور فضل خداوندی کو امت کی بدحالی پر رحم آیا اور ایک فرشتہ صفت انسان پاکباز وجودِ مسعود کا ہندوستان میں ورود ہوا۔ اس وجود مسعود اور قدسی صفت بندۂ خدا کو دنیا سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے نام سے جانتی ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒنے اپنے علم و عمل اور معرفتِ خداوندی و تقویٰ سے برصغیر پاک و ہند کو اس طرح مسخر کیا کہ آج 812سال گزرنے کے بعد بھی آپ کا نام زبان پر آتے ہی دل عقیدت سے جھوم جھوم اٹھتا ہے اور آپ کی خدماتِ دین، اشاعتِ اسلام کے روشن و تابناک کارناموں اور جدوجہد کی ایک پوری داستان دل و دماغ کو منور کر جاتی ہے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے اسلامی علم ِ معرفت ، دعوت دین کی جدوجہد و کوشش ، اصلاحِ معاشرہ اور تربیتِ افراد کے ذریعے ہندوستان میں اسلام کی اخلاقی وروحانی سلطنت کی ایسی بنیاد رکھی کہ ہر طرف توحید کے غلغلے بلند اور اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ اہلیانِ برصغیر کے دلوں میں ایمان کی شمع فروزاں ہو گئی۔ اللہ کے دین پر جان دینے کے جذبے فروغ پذیر ہوگئے۔

امن و سلامتی کی فضا ہر طرف قائم ہوگئی اور صراطِ مستقیم پر سفر آسان سے آسان تر ہو گیا۔ تاریخی طور پر ہندوستان میں تبلیغ اسلام کے ہراول دستے پہلی صدی ہجری ہی میں آنا شروع ہوگئے تھے، لیکن حضرت معین الدین چشتیؒ کی آمد کے بعد یہاں حقیقی اور عملی طور پر ایمان و اسلام کی روحانی و اخلاقی تعلیمات کا فروغ آپ کی محنت و دعوت ِدین اور عملی کر دار سے ممکن ہوا۔ آپ کی روحانی تعلیمات اور شخصیت نے برصغیر میں اسلام کو جلاِ بخشی اور ہزاروں بندگانِ خدا اسلام میں داخل ہونے لگے۔

جب حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اجمیر تشریف لائے تو اس وقت یہاں راجہ پرتھوی راج کی حکومت تھی۔ پرتھوی راج نے اپنے علاقے میں اسلام کی روشنی دیکھی تو تاب نہ لا سکا اور اسلام دشمنی میں تلملا اٹھا، ایک خدا پرست انسان خواجۂ اجمیر کی مخالفت میں پیچ و تاب کھانے لگا اور اپنی مذموم سازشوں سے اسلام کی شمع کو بجھانے کی ناپاک منصوبہ بندی اور لا حاصل کو ششوں میں مصروف ہو گیا۔ 

حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اور آپ کے ساتھیوں کو اجمیر بدر اور ہندوستان سے رخصت کرنے کے لئے ظلم و زیادتی جیسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا۔ آپ کے اشاعت اسلام کے کام میں رکاوٹیں پیدا کرنے اور آپ کو مصائب و مشکلات میں الجھانے کی سازشیں کی جانے لگیں۔ آپ اجمیر میں جس مقام پر بھی قیام فرماتے ،وہاں سے آپ کو چلے جانے پر مجبور کر دیا جاتا۔ ظلم و ستم کی انتہا تھی کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور آپ کے مریدین و معتقدین پر پانی بند کر دیا گیا۔ اجمیر میں پانی کے واحد ذریعے اناساگر تالاب پر فوج کا پہرا بٹھا دیا گیا۔ 

غرض یہ کہ پرتھوی راج آپ کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اور بدترین حرکتوں پر اتر آیا ،ان تمام تر ظلم و زیادتی اور ایذارسانی کے باوجود حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے پائے ثبات میں ذرہ برابر بھی لغزش نہیں آئی۔ آپ استقامت کے ساتھ دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے کام میں مکمل یکسوئی اور ہمت و جرأت کے ساتھ مصروف اور صبر و عزیمت کے راستے پر گامزن رہے۔ اسلام کی خدمت اور دین کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا جو فریضہ ہندوستان میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒنے انجام دیا، وہ صرف آپ ہی کا خاصّہ اور حصہ ہے۔ 

آپ کے صدق و صفا، جودو سخا اور اخلاق و وفا سے متاثر ہو کر لاکھوں بت پرست و مشرک عمدہ اخلاق اور پاکیزہ صفات کی ’’جَون‘‘ میں تبدیل ہوگئے۔ لاکھوں لوگ اسلام قبول کر کے ایک اللہ کے ماننے والے بن گئے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آج اگربرصغیر ہندوستان (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش) میں ایک خدا کی عبادت ہوتی ہے تو اس کا سہرا حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے سر ہے اور یہ آپ کی دین اسلام کے لئے محنت اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی زندگی اسلامی تعلیمات کا چلتا پھرتا نمونہ تھی، آپ قرآن و سنت کی عملی تفسیر اور اسوۂ حسنہ کا بہترین شاہکار تھے۔ آپ کی زندگی بہت سادہ ، دل کش اور من موہنی تھی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے ہندوستان میں طبقاتی تقسیم کے بھیانک ماحول اور بدترین سماجی اونچ نیچ کے منقسم معاشرے میں اسلام کے نظریۂ توحید کو ایک عملی عقیدے کی شکل میں بت پرست مشرکین کے سامنے پیش کیا اور سماجی تقسیم کے مارے انسانوں کو بتایا کہ عقیدہ توحید کوئی تخیّلاتی چیز نہیں ہے، بلکہ عام زندگی کا ایک ایسا اصول ہے کہ جسے تسلیم کر لینے کے بعد ذات پات کی تفرق اور سماجی اونچ نیچ کی تمام تقسیمیں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ 

یہ ہندو معاشرے میں ایک زبر دست اسلامی سماجی انقلاب کا اعلان تھا۔ ہندوستان میں بسنے والے لاکھوں مظلوم انسان خواجہ معین الدین چشتیؒ کے اسلامی سماجی انقلابی اعلان کو سن کر دوبارہ زندگی کا کیف محسوس کرنے لگے۔ ہندوستان کے اس سب سے بڑے اور سب سے پہلے اسلامی سماجی انقلاب کا بانی ایک چھوٹی سی جُھونپڑی میں ایک پھٹے ہوئے کرتے اور تہبندمیں لپٹا ہوا بیٹھا انسانوں کی سماجی و روحانی زندگی کی ’’جَون‘‘ اسلام کی انقلابی تعلیمات سے تبدیل کرتا رہا۔

آئیے ! حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی انقلابی سماجی و دینی تعلیمات و ارشادات عالیہ سے استفادہ کریں۔حضرت خواجۂ اجمیرؒ نے اخوت اور تکریمِ انسانیت کا درس دیتے ہوئے فرمایا ’’گناہ تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا، جتناکسی انسان کو ذلیل و خوار کرنا‘‘ خدمت خلق کا درس دیتے ہوئے فرمایا:’’ جو چاہتا ہے کہ قیامت کی ہول ناکیوں سے محفوظ رہے تو وہ بھوکوں کو کھانا کھلائے، بےلباس کو کپڑا پہنائے اور مصیبت زدہ مظلوم کی فریاد رسی کرے‘‘۔

عصرِحاضر میں آج عالم اسلام اور امتِ مسلمہ کی دینی ، اخلاقی ، سیاسی اور سماجی حالت یہ ہے کہ ایک طرف کشمیر سے لےکر افغانستان ، چیچنیا ، عراق، لبنان، شام تک مسلمان فکری انتشار ، علمی اختلاف اور فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہیں تو دوسری طرف فلسطین میں دورِ جدید کے منگولوں ، یہودو نصاریٰ نے مسلمانوں کے خون کے دریا بہا دیے ہیں اور امت محمدیہ کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ عالم اسلام پر بے حسی اور غفلت چھائی ہوئی ہے۔

ایسے ماحول اور بدترین حالات میں حضرتِ خواجہ معین الدین چشتیؒ کی یاد مناتے ہوئے ہمیں آپ کی زندگی اور اخلاقی و سماجی تعلیمات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کی اخلاقی و سماجی تعلیمات کو وسعت دی جائے، کردار کا ہتھیار استعمال کیا جائے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے ماننے والے تمام صوفیائے کرام اور معتقدین کی یہ ذمہ داری ہے ،اور دور حاضر اس کا متقاضی ہے کہ امن عالم کی بقاء، عدل و مساوات ِ انسانی کا فروغ، رواداری و یکجہتی ، باہمی امداد و تعاون،انسانی جذبات و احساسات کا احترام ، انسانی ضمیر کی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے اسلام کی اقدارِ حیات کو اُجاگر کیا جائے۔