• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک NGO شہر میں خیراتی ہسپتال چلاتی ہے، جہاں غریبوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے، تمام اخراجات زکوٰۃ اور صدقات کی رقم سے پورے کیے جاتے ہیں، سال کے آخر میں کچھ رقم بچ جاتی ہے ، کیا یہ رقم کسی بینک میں منافع حاصل کرنے کے لیے رکھی جاسکتی ہے ؟ (محمد نسیم ، کراچی)

جواب: صدقاتِ واجبہ (زکوٰۃ ، فطرہ ، فدیہ ، کفارہ اور نذرکی رقوم ) جمع کرنے والے ادارے یا افراد زکوٰۃ دینے والوں کے وکیل ہوتے ہیں اور اُن کی شرعی ذمے داری ہے کہ وہ زکوٰۃ کو اس کے شرعی مصارف پر صرف کریں، ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوں گے۔ محض فنڈ میں زکوٰۃ جمع ہونے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، تاوقتیکہ شرعی اصولوں کے مطابق مستحق افراد کو نہ دےدی جائے۔ زکوٰۃکی رقم کو کہیں انویسٹ کرکے نفع حاصل کرنا خالصۃً کاروباری سوچ ہے ، اگر اس سوچ کی حوصلہ افزائی کی جائے تو مستحق افراد تک زکوٰۃکا پہنچنا دشوار بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔

اگر کسی برادری کی انجمن یا رفاہی ادارہ زکوٰۃ کی رقم سال بھر کے مصارف کے لیے جمع کرتاہے ،توآیا اس عرصے کے لیے اُسے کسی اسلامی بینک کے مُضاربت کے اکاؤنٹ میں جمع کرکے نفع حاصل کرسکتا ہے، اس کے بارے میں ہمیں کتبِ فقہ میں کوئی صراحت نہیں ملی، لیکن حال ہی میں ایک سعودی جامعہ میں ایک ریسرچ اسکالر نے پی ایچ۔ڈی کا مقالہ لکھاہے اوراس میں ایسے اداروں کو محدود مدت کے لیے اس کی رخصت دی ہے اور قرار دیا ہے کہ اس سے حاصل شدہ نفع زکوٰۃ فنڈ ہی میں جمع کرنا ہوگا اورجمع کرنے والی انتظامیہ اس نیت کے ساتھ مُضاربہ اکاؤنٹ میں زکوٰۃ کی رقم جمع کرائے،مگر خدانخواستہ نقصان کی صورت میں نقصان وہ خود بھریں گے،لیکن یہ ایک تجویز ہے، اس کی تائید میں قرآن وحدیث کی کوئی نَصّ یا فقہی حوالہ موجود نہیں ہے۔

دینی مدارس، خیراتی اسپتالوں اورمکمل کفالتی اداروں کو سال بھر کے مصارف کے لیے صدقاتِ واجبہ کی رقم جمع رکھنی ہوتی ہے ،جو بتدریج خرچ ہوتی ہے، لہٰذا وہ اس بارے میں علماء کی رائے لے سکتے ہیں۔ علماء بعض اوقات ان معاملات میں انتہائی حدتک احتیاط سے اس لیے کام لیتے ہیں کہ ایسانہ ہوکہ بعض ادارے زکوٰۃ کا مال کاروبار ہی میں لگائے رکھیں۔

ایسے تمام ادارے جو صدقاتِ واجبہ (یعنی زکوٰۃ ، فطرہ ،فدیہ وکفارات )اور نفلی صدقات کی رقوم جمع کرتے ہیں ، انھیں صدقاتِ واجبہ اور نافلہ دونوں کی آمد وخرچ کاحساب علیحدہ رکھنا چاہیے ،کھاتے کے رجسٹر (Ledger) میں صدقاتِ واجبہ کی آمد وخرچ کے کھاتے (Heads of Account)الگ ہونے چاہییں، غرض صدقاتِ واجبہ اور نفلی صدقات کا اکاؤنٹ الگ الگ بھی رکھا جاسکتا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ ادارے کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ صدقاتِ واجبہ کی رقم فقراء ومستحقین پر خرچ کریں ، جب مستحقین دستیاب ہیں ، توان رقوم کو بینکوں میں جمع رکھنے یا اس رقم کو سرمایہ کاری (INVESTMENT) میں لگانےکا کیا جواز ہے، نیز اگر کسی نے صدقات کی رقم کاروبار میں لگائی اور اس میں نقصان ہوگیا یا اصل مال بھی ڈوب گیا ،تو اس کا تاوان اُن عہدیداروں یا پوری انجمن پر ہے، کیونکہ وہ امین ہیں اور انھوں نے امانت میں خود تصرُّف کیا ہے، شریعت نے اُنہیں اس کا مُکلّف نہیں بنایا، لہٰذا انھیں اس کا تاوان اپنے ذاتی وسائل سے پورا کرنا ہوگا۔

(واللہ اعلم بالصواب)