• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: جب کوئی شخص عمرہ یاحج کرنے کے لئے جائے تو کیا وہاں بار بار عمرہ کرسکتا ہے؟ بار بار عمرہ کرنا افضل ہے یا طواف؟

جواب: متعدد عمرے کرنا یا ایک عمرہ کرکے پھر حرم میں ہی رہتے ہوئے متعدد طواف کرنا دونوں جائز ہیں۔ البتہ آفاقی شخص (یعنی جو میقات سے باہر رہنے والا ہو) کے لیے" کثرتِ عمرہ "افضل ہے ، اور مکی کے لیے کثرتِ طواف افضل ہے، اس لیے اگر زائر حلّ تک جانے اور واپس آنے کے کرایہ اور حلق وغیرہ کے اخراجات کا متحمل ہو تو اسے حسبِ استطاعت عمرے کرنے چاہییں، اور اگر گنجائش نہ ہو تو کثرت سے طواف کرنے چاہییں۔ 

واضح رہے کہ یہ حکم صرف افضلیت کے اعتبار سے ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص گنجائش کے باوجود عمرے کثرت سے نہیں کرتا، بلکہ حرم میں رہ کر طواف کرتاہے تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی اور ضرورت (مثلاً: سفر میں کوئی مریض یا ضعیف ساتھ ہو جس کی خدمت میں رہنا ضروری ہو) کی وجہ سے اضافی عمرے نہ کرسکے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

پے در پے عمرہ کرنے کی آپ ﷺ نے ترغیب دی ہے، اور بعض صحابہؓ اور تابعین ؒ سے بھی اس کی ترغیب منقول ہے، چناںچہ آپ ﷺ نے فرمایا "پے در پے حج، عمرہ کیا کرو ،کیوں کہ یہ فقر اور گناہوں کو ایسے ختم کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کو ختم کردیتی ہے" اور ایک موقع پر ارشاد فرمایا "(دوسرا)عمرہ (پہلے)عمرے تک کے سارے گناہوں کا کفارہ ہے"۔حضرت انس بن مالک ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایک عرصے تک مکہ میں آکر رہے اور جب بھی ان کے بال بڑے ہوتے، وہ عمرہ کر لیا کرتے تھے۔