آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال:1- فلسطین اور غزہ کی سرزمین پر یہودی جارحیت کے خلاف مدارسِ اِسلامیہ کا موقف کیا ہے؟
2- حماس کی مدد کرنا اس وقت امت پر کیا درجہ رکھتا ہے؟
3- اسرائیل کے خلاف عالمِ اِسلام کی مجرمانہ خاموشی کس حد تک درست ہے؟
4- مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے مسلمان عوام پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ براہِ کرم نصوص کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں؟
جواب:1- فلسطین اور غزہ کی سرزمین پر یہودی جارحیت کے خلاف مدارسِ اِسلامیہ کا موقف وہی ہے جودیگر اُمتِ مسلمہ کا ہے، یعنی یہودی غاصب اور ظالم ہیں، اور اس خطے کے مسلمانوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کے تمام تر اقدامات محض بربریت کے زمرے میں آتے ہیں، ان اقدامات کی وجہ سے اسرائیلی حکومت انسانی جرائم اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہے، ساتھ ساتھ بین الاقوامی جنگی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی مرتکب بھی ہے،اس لیے پوری انسانی دنیا اور بالخصوص اسلامی ممالک کے حکمران اور عوام پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہر ممکن اقدام اورآواز اٹھانا اخلاقاً و شرعاً لازم ہے ، اور اس جارحیت کی ہر ممکن روک تھام کرنا مسلمان حکمرانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔
2- واضح رہے کہ تمام وہ فلسطینی مسلمان جو اس وقت اسرائیلی جارجیت کے نشانے پر ہیں، بلا امتیاز ان سب کی مدد کرنا امت پر لازم ہے۔
3.4- نیز اسی طرح فلسطین کے موجودہ حالات اور مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے پورے عالم اسلام کے مسلمان اپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں کے لیے خاص طور پر دعاؤں کا اہتمام کریں، اس کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور انفرادی طور پر حسبِ استطاعت کردار ادا کرنا ہر ایک مسلمان پر لازم ہے ، لہٰذا امت کے ہر طبقے کے افراد چاہے عوام ہوں یا حکمران اپنی اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق فلسطین اور بالخصوص غزہ کے مسلمانوں کی ہر قسم کی امداد اور مسجد اقصیٰ کے تحفظ میں شرعاً مکلف ہيں، چناں چہ جس طبقے کے ليے صہیونی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے والوں يا عام مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی جسمانی يا مالی مدد کرنا ممکن ہو یا کوئی ان کی اشیائے خورو نوش وغیرہ سے یا کسی بھی قسم کی امداد کر سکتا ہو،تو اس طبقے پر اسی طرح کی امداد و تعاون کرنا لازم ہے، اس کے علاوہ جو مسلمان ظالم غاصب صہیونی ریاست پر دباؤ ڈالنے والا کوئی بھی اقدام کرسکتا ہے تو اسے ا س سے دریغ نہ کرے، غرض یہ کہ ذمہ داری اور جواب دہی بقدر استطاعت ہے، حسب استطاعت تعاون سے پیچھے رہناشرعی و اخلاقی جرم ہے۔