یہ صرف ’’بلّے‘‘ کی ایک علامت ہے لیکن اس سے لاکھوں کہانیاں وابستہ ہوچکی ہیں۔ منصوبہ ساز اسے لوگوں کے تخیل سے جتنا دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسکے بے حد روانی سے کھیلے گئے اسٹروک میدان میں چاروں طرف گونجنے لگتے ہیں۔ مجبور اور غیر فعال اداروں اور انکے سہولت کاروں کی تمام اجتماعی کوششیں لوگوں کے ذہنوں سے اسکا گہرااثر زائل کرنے کیلئے ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔ جو کچھ اب تک ہوا ہے، اس سے ایک خوفناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ تمام ریاستی عناصر ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ،جو وفاقی سطح پر ملک کی واحد جماعت ہے، کو توڑنے کیلئے مذموم اور گھنائونی کوششوں میں شامل دکھائی دیتے ہیں۔
اسکے پیچھے کچھ افراد کی انا اور تکبرکارفرما ہے جس نے اُن کیلئے لازم بنا دیا ہے کہ ایک ایسے شخص سے نمٹنے کیلئے کچھ بھی کر گزریں جو ملک کو غلامی کے پنجوں سے آزاد کرانے اور عوام کی فلاح و بہبود کی راہ پر گامزن کرنے کی سوچ رکھتاہے ۔ اس شخص نے اس راستے پر تبدیلی کے ابتدائی قدم اٹھانا شروع کردیے جس پر چلتے چلتے ہم اُن آقائوں کے قدموں میں جا گرے تھے جو اپنے تزویراتی اور گروہی مفادات کو آگے بڑھانے کیلئے یکسو ہیں ۔ ان کا تصور یہ تھا کہ پاکستان کی مہربان ریاست عوام کو غلامی اور مفلسی کی اُن زنجیروںسے رہائی دلائے جن میں وہ کئی نسلوں سے اسیر ہیں ۔ کوویڈ کے بحران سے بہت اچھے طریقے سے نمٹتے ہوئے دنیا کیلئے ایک مثال قائم کی ۔ اس دوران لاک ڈائون لگاتے ہوئے لوگوں کو روزی کمانے سے محروم کرنے سے گریز کیا گیا۔ سیاسی مخالفین کی جانب سے بے تحاشا تنقید کے باوجود ان کی کاوش کو بین الاقوامی سطح پر ایک منفرد کامیابی کی کہانی کے طور پر سراہا گیا ۔بہت سی اسکیمیں تھیں جیسے ہیلتھ کارڈ کے ذریعے ملک بھر کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولت سے لیکر احساس پروگرام کی چھتری تلے کئی ایک فلاحی منصوبے جن کا مقصد ستم زدہ عوام کو ریلیف فراہم کرنا تھا۔ بے گھر افراد کیلئے پناہ گاہیں تعمیر کی گئیں ۔ کئی ایک اسکیموں کیلئے بلاسو د قرضے تھے تاکہ اشیائے صرف ارزاں نرخوں پر فراہم کی جاسکیں۔
عوام کی فلاح کی دو طرفہ کوشش دیکھنے میں آئی ۔ ایک طرف ملک میں کام کیا گیا ، دوسری طرف دیگر ممالک ، خاص طور پر خطے کی ریاستوں سے پاکستان کے تعلقات بڑھائے گئے۔ عمران خان کا ہمیشہ سے استدلال رہا ہے کہ پاکستان امن میں تو شراکت دار بننے کا خواہاں ہے ، لیکن جنگ میں کبھی نہیں۔ تعجب ہے کہ طرزعمل کی اس تبدیلی نے ہمارے بیرونی دوستوں اور شراکت داروں سے بڑھ کرکچھ اندرونی طاقتوں کو برہم کردیاجو ہمارے روایتی دوستوں اور اتحادیوں ، خاص طور پر جن کا تعلق مغرب سے ہے ، کیساتھ ایک جامدپالیسی پر کاربند تھیں اور جنگ میں ان کی شراکت دار بننا پسند کرتی تھیں۔ عمران خان کا روس کا دورہ اتفاق سے اُس وقت ہوا جب یوکرین کی جنگ ہورہی تھی ۔ اس نے بہت سوں کی پیشانی شکن آلود کردی۔ اُنکا خیال تھا کہ ترجیحات میں تبدیلی کی وجہ سے پاکستان پر اُن کی گرفت کمزور ہو جائیگی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ پاکستان کے روایتی ثالثوںکے نصیب اس طرح بگڑ جائیں گے ۔ اُنھیں اس خارجہ پالیسی کی تبدیلی سے خدشہ محسوس ہونے لگا جس کا مقصد پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کو آگے بڑھانا تھا۔ لیکن یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ خطرے کا عنصر انھیں ایسے انتہائی قدم اٹھانے کی شہ دے گا۔ انھوںنے ایک جمہوری طریقے سے منتخب شدہ آئینی اور قانونی حکومت کو گرا دیا۔ اسکے بعد پاکستان کی سب سے بڑی اور سب سے مقبول سیاسی جماعت، پاکستان تحریک انصا ف کو منظم طریقے سے شکست وریخت کا شکار کردینے کی کوششیں شروع ہوئیں ۔ اس کے دس ہزار سے زائد کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا، انھیں قانونی چارہ جوئی کے حق سے محروم رکھاگیااور اسکے عالمی شہرت یافتہ لیڈر کو ایک سو پچاس سے زائد جھوٹے اور من گھڑت مقدمات میں گرفتار کرلیا ۔ ’’بلّے‘‘ کی کہانی صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی ۔خان کی مقبولیت کا گراف اوپر جاتے دیکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ تحریک انصاف کے ممبران کو آنے والے انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا جائیگا۔اس آپریشن کے تحت جبری گمشدگی ، وفاداریوںکی تبدیلی ، ریٹرننگ افسران کی طرف سے ان کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کو انتخابی دوڑ سے باہر کرنے کا ہر چارہ کرلیا گیا۔ جب ان سب ہتھکنڈوں سے کام نہ چلاتو ثالثوںنے تلوار اٹھالی ۔ سپریم کورٹ کو استعمال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست کی سماعت کرائی جس میں تحریک انصاف کے اندرونی الیکشن کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اسے انتخابی نشان ’’بلّے‘‘ سے محروم کردیا گیا۔ اس طرح تحریک انصاف انتخابی اکھاڑے میں اپنے روایتی نشان کے ساتھ داخل ہونے کا حق کھو بیٹھی۔ اس کی بجائے، یہ آزاد امیدوار وںکی حمایت کرنے پرمجبور ہوگئی۔ عمران خان کو اُن سہولتوںسے بھی محروم رکھا جارہا ہے جو ہر قیدی کو حاصل ہوتی ہیں ۔ لیکن وہ بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے پرعزم ہیں ۔ ریاستی جبر کے باوجود تحریک انصاف وفاقی اور صوبائی ، ہر حلقے میں امیدوار کھڑا کرتے ہوئے ان انتخابات میں حصہ لے گی ۔ امیدواروں کی نامزدگی کا اعلان ہوا تو رپورٹیں آنے لگیں کہ انھیں دھمکیاں مل رہی ہیں اور ہراساںکیا جارہا ہے تاکہ وہ اپنی پارٹی چھوڑکر دیگر سیاسی جماعتوں میں شامل ہوجائیں ۔انتخابات بمشکل ہی تین ہفتے دوری پرہیں ۔ منصوبہ ساز اور ان کے معاونین نے تحریک انصاف کو امیدواروں اورعوام کی حمایت سے محروم کرنے کیلئے اپنی پٹاری میں موجودہ ہر حربہ آزما دیکھا ہے ۔ یہ کسی آتشیں دریاکو پار کرنے کے مترادف ہے ، پھر بھی منصوبہ سازوں کی مایوسی بڑھتی جارہی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا سامنا یقین اور ایمان کی طاقت سے ہے ۔ اپنے لیڈر، عمران خان کے خلوص سے حوصلہ پاتے ہوئے، انکا پہاڑ آسا جذبہ سرنگوں ہونا نہیں جانتا۔کوئی آندھی اُنکی امیدوں کے چراغ گل نہیں کرسکتی۔ (صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں)