• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں کہ سیاست بہت بے رحم ہوتی ہے، اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا، اس کی وجہ سے بھائی ،بھائی کا خون کردیتا ہے اوراچھے بھلے دوست ممالک ایک دوسرے کے خلاف جنگ چھیڑ دیتے ہیں تو دوسری جانب دہائیوں کے دشمن کسی مفاد کی خاطر باہم شیر وشکر ہوجاتے ہیں۔ کسی نے سیاست کو امکانات سے فائدہ اٹھانے کا فن قرار دیا ہےتو کوئی کہتا ہے کہ اس میدان میں کوئی دائمی دوستی اور دشمنی نہیں ہوتی۔

ممتاز برطانوی مصنف جارج اورول نے سیاست کے بارے میں کہا تھا: ’’سیاست کی زبان اس طرح اختراع کی جاتی ہے کہ جھوٹ پر سچ کا گمان ہو اور قتل معتبر لگنے لگے‘‘۔ اسی طرح ایک امریکی دانش ورکا کہنا ہے کہ :’’اگر عوام حکومت سے جھوٹ بولیں تو یہ مس کنڈکٹ اور جرم ہو گا، تاہم اگر حکومت عوام سے جھوٹ بولے تو اسے ’’سیاست‘‘ کہا جائے گا‘‘۔

جارج اورول نے’’ 1984‘‘کے عنوان سے ایک ناول 1949ء میں لکھا تھا۔ اس وقت سے اب تک اس کی کئی لاکھ جلدیں صرف انگریزی زبان میں فروخت ہو چکی ہیں۔ اس کا ترجمہ دُنیا کی پچاس سے زیادہ زبانوں میں ہو چکا ہے۔اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مطلق العنانی کس طرح انسانی سوچ کو جکڑ لیتی ہے۔اسے اگر آج بھی پڑھا جائے توجسم میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔

آٹھ جون 1949کو شایع ہونے والا یہ ناول جنگِ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں لکھا گیا تھا جب یورپ مکمل تباہ ہو چکا تھا، برطانوی قوم بھوک اور افلاس میں گِھر چکی تھی اور مستقبل بھی تاریک دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن لگتا ہے کہ یہ ناول آج کل کے حالات پر لکھا گیا تھا اور اورول کی خوبی یہ ہے کہ وہ ناول میں پیش کیے گئے حالات کا مقابلہ کرنے کا سبق بھی دیتے ہیں۔ طرح طرح سے اپنا بیانیہ لوگوں پر مساط کرنے والوں کی کوششوں کی بارآوری کاطنزیہ انداز میں نقشہ کھینچتے ہوئے اورول اس ناول میں لکھتے ہیں:’ ’یہ اپریل کا ایک سرد اور روشن دن تھا اور گھڑیالوں سے تیرہ بجے کی گھنٹیاں بج رہی تھیں‘‘۔

ناول کا مرکزی کردار، وِنسٹن اسمتھ، وزارتِ سچ میں مواد کو سینسر کرنے کی ذمے داری اداکرتا ہے اور وہ تاریخ کو ہر وقت ایسے انداز میں پیش کرتا ہے جس سے آپ کو موجود حالات بُرے نہیں لگتے اور آپ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ ناول میں اس نے دکھایا ہے کہ کس طرح عوامی جذبات کو استعمال کر کے پروپیگنڈا کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق نئے دشمن گھڑے جا سکتے ہیں۔

آج کل سیاسی، مذہبی اور کاروباری تنظیمیں اورہر طرح کے گروہ آپ کے احساسات اور جذبات کو بھڑکا کر ان جذبات کی تجارت کر رہے ہیں۔ اورول حیرت انگیز طور پر اس رجحان کی بھی پیش گوئی بھی کر چکے تھے کہ کس طرح لوگ اپنی مرضی سے اس قسم کی نفرت انگیز تحریکوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ وِنسٹن اسمتھ بھی اپنے اندر اس تبدیلی کو محسوس کرتا ہے۔یہ ناول ہمیں دکھاتا ہے کہ چیزوں کو واپس ٹھیک کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ جب آپ سے الفاظ چھین لیے جاتے ہیں تو لوگوں کے پاس الفاظ کم ہوتے جاتے ہیں اور ان لوگوں کی سوچ کی جگہ ایسے نظریات لے لیتے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔

یہ آج بھی اتنا پُراثر ناول ہے کہ جن ممالک میں آمراقتدار سے اب بھی چمٹے ہوئے ہیں، وہاں جارج اورول کے اس ناول پر پابندی ہے، تاہم وہاں بھی یہ شہرۂ آفاق کتاب خفیہ راستوں سے پہنچ جاتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اب تو دنیا کی مستحکم جمہوریتوں میں بھی اس ناول کی فروخت میں اٰضافہ ہو رہا ہے۔بھارت، برطانیہ، چین اور پولینڈ میں لوگ ایک مرتبہ پھر’ ’1984‘‘ سے رجوع کر رہے ہیں۔ امریکا میں بھی لوگ سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ ناول پڑھ رہے تھے اور وہاں بھی اس کی فروخت میں اضافہ ہو چکا ہے۔

ملک میں اِن دنوں انتخابی دنگل جاری ہے۔ سیاست داں بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔وہ اپنا بیانیہ عوام کو سُنا اور سمجھارہے ہیں۔ باتیں بہ ظاہر عوام کے مفاد کی ہیں، لیکن زبان سیاست کی ہے۔ماضی اور حال کا جائزہ لیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کل ایک جماعت کاانتخابات کے موقعے پر جو بیانیہ تھا ،آج اُسے دوسری جماعت نے اپنالیا ہے۔

پہلے انتخابی جلسے جلوسوں میں شرکت سے لوگوں کو سیاست اورسیاست دانوں کے بارے میں بہت سی نئی باتیں معلوم ہوتی تھیں ۔وہ ملک کو درپیش مسائل سے آگاہ ہوتے اور ان کے حل کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں کا نقطۂ نظر سننے کے بعد کسی امیدوار کو ووٹ دینے کے بارے میں اپنا ذہن بناتے تھے۔ اس طرح لوگوں کی سیاسی تربیت ہوتی اور ان کے سیاسی شعور کی سطح بلند ہوتی تھی۔ اب بہت سے افراد یہ کام گھر میں بیٹھ کر ذرائع ابلاغ کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں، لیکن انتخابی جلسے جلوسوں والا لُطف حاصل نہیں ہوتا۔ جلسے جلوسوں میں نئے نئے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ 

ذاتی تعلقات کا دائرہ بڑھتا ہے، معاشرے کے مختلف طبقات کے میل میلاپ سے ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور ہجوم اورگروہ قوم میں ڈھلتے ہیں۔ ان میں مل جل کر رہنے اور جیو اورجینے دو کے اصول پر کاربند ہونے کا سلیقہ آتا ہے۔ جمہوری معاشرے اسی لیے پُر امن ہوتے ہیں ،کیوں کہ وہاں مختلف طبقات کو انتخابات کے موقع پر دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملتاہے۔ لیکن ہمارے ہاں انتخابات کشیدگی لاتے ہیں جو منتخب حکومت کے ختم ہونے پر بھی ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

ایسے ہی حالات آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے موقعے پر بھی ہیں۔اس مرتبہ تو انتخابات کے اعلان کے موقعے پر ہی عجیب و غریب حالات تھے۔ جس ملک میں آئین کے ساتھ بار بار کھیلواڑہو،اسے بار بار معطل کردیاجائے، مقتدر قوتیں اورسیاست داں مفادات کا کھیل کھیلیں اور غریب آدمی کے لیے زندگی گزارنا روز بہ روز مشکل ہوتا جائے ،وہاں عام آدمی انتخابات سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں رکھتا۔ اس مرتبہ انتخابی مہم روایتی انداز سے محروم اور اس کا رنگ پھیکا ہے۔ 

امیدواروں کی انتخابی مہم میں روایتی جوش و خروش تادم تحریرنظر نہیں آیا ہے۔ سیاسی اور عوامی حلقے اس کی مختلف وجوہات بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن وہ ہمار موضوع نہیں ہے۔ ہم تو یہ دیکھنا چاہ رہے ہیں کہ آج جو انتخابی بیانیہ کسی جماعت کا ہے ،وہ کل کون سی جماعت زور وشور سے پیش کررہی تھی۔

آپ نے شہباز شریف کا مشہور زمانہ ’’پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے‘‘ اور آصف علی زرداری کا ’’گردن میں سے سریا نکالنے ‘‘ کا بیانیہ تو سنا ہوگا۔لیکن اس کے بعد ’’مفاہمت‘‘ ،’’میثاقِ جمہوریت‘‘ ،اور’’ میثاقِ معیشت‘‘ کا بیانیہ بھی سنا ہوگا۔ پھر پی ڈی ایم بنانے، اس سے راہیں جدا کرنے اور پھر پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کے لیے دوبارہ متحد ہونے، مل کر حکومت بنانے اور چلانے کا بیانیہ بھی سامنے آیا۔ مخلوط حکومت کے زمانے میں ان جماعتوں کا ’’شیریں بیانیہ‘‘ دیکھیں اور اب ان ہی جماعتوں کے ’’تلخ انتخابی بیانیے‘‘ کا موازنہ کریں تودماغ چکرا جاتا ہے۔

آئیے! اب ایسے مزید ’’بیانیوں‘‘ کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔

ان دنوں تمام سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی مہم چلانے اور انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیے یک ساں مواقعے فراہم کرنے، امیدواروں کو ہراساں نہ کرنے، روایتی انتخابی نشان سے محروم نہ کرنے اور انتخابات کے نتائج کو قابل قبول بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے ،وغیرہ، جیسے بیانیوں کا بہت چرچا ہے۔ چلیے دیکھتے ہیں کہ کل اور آج کے حالات میں اس ضمن میں کیا فرق آیا ہے۔

عام انتخابات میں بیوروکریٹس کی بہ حیثیت آر اوز تعیناتی پر تحریک انصاف کے خدشات گزشتہ ماہ سامنے آئے تھے۔پھر بات لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ملک میں فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں بیوروکریٹس کی بہ حیثیت انتخابی عملہ تعیناتی کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے تک پہنچی۔ اس کے بعد ایک شام سپریم کورٹ اچانک کھلنے کے بارے میں خبریں آنا شروع ہوئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ٹی وی ا سکرینز پر وہاں ہونے والی ایک سماعت کی لائیو نشریات کا آغاز ہوا۔یہ سماعت لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ملک میں فروری2024میں ہونے والے عام انتخابات میں بیوروکریٹس کی بہ حیثیت انتخابی عملہ تعیناتی کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کے فیصلے کے ردِعمل میں ہو رہی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست اس لیے دائر کی گئی تھی کیوں کہ سابق حکم راں جماعت کو بیوروکریٹس کی بہ طور انتخابی عملہ تعینات ہونے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تحفظات تھے۔

لاہور ہائی کورٹ میں اس درخواست پر سماعت اور آنے والے فیصلے سے پہلے ہی الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ آفیسرز اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز کے انتخابات سے متعلق تربیتی عمل کو روک دیا تھا۔ ایسے میں سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس کی جانب سے تحریکِ انصاف کو بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا اور پھر لاہور ہائی کورٹ کا آر اوز کی تعیناتی منسوخ کرنے کا حکم معطل کر کے الیکشن کمیشن کو الیکشن شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا گیاتھا۔

پی ٹی آئی کی اس درخواست اور آر اوز سے متعلق تحفظات کو دوسری سیاسی جماعتوں نے ’الیکشن سے بھاگنے‘ کے مترادف قرار دیا۔ دوسری جانب پاکستان کی حالیہ تاریخ میں 2013 اور 2018 میں ہونے والے دونوں ہی انتخابات میں دھاندلی کی گونج دوبارہ سنائی دی۔ 2013 کے انتخابات میں تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے اسے ’’آر اوز کا الیکشن‘’ قرار دیا گیا تھا۔ خود تحریکِ انصاف کی جانب سے اس سلسلے میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر کئی ماہ پر محیط دھرنا دیا گیا تھا۔

سیاسی ماہرین کے مطابق ماضی میں پاکستان کا انتخابی عمل دھاندلی کے الزامات سے اس قدر دھندلا چکا ہے کہ انتخابی عملہ چاہے عدلیہ سے لیا جائے یا انتظامیہ سے اس پر ہمیشہ سے ہی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کے راہ نما شعیب شاہین دعویٰ کرتے ہیں کہ انتظامیہ ،الیکشن کمیشن اور نگراں سیٹ اپ ملا ہوا ہے۔ کل تک یہ اعتراض دیگر جماعتوں کو تھا۔دوسری جانب سابق وفاقی سیکریٹری برائے الیکشن کمیشن، کنور دلشاد کا خیال اس کے برعکس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی تشویش کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ماضی کے انتخابات کو دیکھیں تو وہ متنازع ہی ٹھہرے ہیں، چاہے ریٹرننگ آفیسرز جہاں سے مرضی لیے جائیں۔2013کے الیکشن مکمل طور پر عدلیہ کے زیر اہتمام ہوئے تھے ،مگر پاکستان تحریکِ انصاف نے بعد میں انہیں دھاندلی زَدہ قرار دے کر دھرنا دیاتھا۔کنوردلشاد کہتے ہیں کہ1988 سے انتخابات عدالتی افسران کی نگرانی میں ہوتے چلے آ رہے ہیں مگر اُن کے کردار پر ہمیشہ سوالات اُٹھتے رہے ہیں۔

آج پی ٹی آئی کے امید وار اور راہ نماانہیں ہراساں کیے جانے کی شکایات کررہے ہیں۔پچھلے انتخابات میں یہ شکایات مسلم لیگ نون کے لوگ کررہے تھے۔ان کے بہت سے امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ واپس کرکے جیپ کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑا تھا۔یہ جون 2018کی بات ہے۔اس وقت جنوبی پنجاب میں گیارہ سے زائد نون لیگی امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ واپس کرکے جیپ کا انتخابی نشان مانگ لیا تھا۔ یاد رہے کہ نون لیگ کے منحرف راہ نما چوہدری نثار کو جیپ کا انتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد ن لیگ کے ناراض اور آزادا میدواروں میں جیپ کا نشان اہمیت اختیار کرگیا تھا اور امیدواروں نے انتخابی نشان جیپ کے لیے الیکشن کمیشن میں درخواستیں دائر کردی تھیں۔

جیپ کانشان مانگنے والوں میں این اے 190ڈی جی خان سے سردار امجد فاروق، حلقہ پی پی 287 اور 288 سے محسن عطا کھوسہ، این اے 193 راجن پور سے لیگی امیدوار شیر علی گورچانی، این اے 194 راجن پور سے ڈاکٹر حفیظ الرحمان شامل تھے۔ راجن پور کی صوبائی نشستوں کے امیدوار یوسف دریشک ،عاطف مزاری، این اے181سے لیگی امیدوار سلطان محمود ہنجر، این اے 166 بہاول نگر ، لیگی امیدوار اصغر شاہ، پی پی 237 اور 238 سے شوکت لالیکا، میاں فدا حسین بھی بھی شیر کے بجائے جیپ کے خواہشمند تھے۔

اوکاڑہ سے رضاعلی جیلانی نے پی پی 184 سے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے انکار کرکے پی پی 184 اور 185 سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا۔ سید رضا علی جیلانی سابق حکوت میں صوبائی وزیر ہائرایجوکیشن رہ چکے تھے۔ڈی جی خان سے این اے 190 پر لیگی امیدوار اور سردار امجد فاروق کھوسہ نے بھی جیپ کانشان مانگ لیاتھا۔یاد رہے اس سے قبل الیکشن کمیشن نے چوہدری نثار کوجیپ کا انتخابی نشان الاٹ کیا تھااوران کےحمایت یافتہ امیدوار عمر فاروق اورفیصل اقبال نے بھی جیپ کے انتخابی نشان پرانتخابات لڑا تھا۔

اس وقت عام انتخابات میں ملک بھر سے 114امیدواروں نے جیپ کے انتخابی نشان پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا۔ وفاقی دارالحکومت اور پنجاب سے جیپ کے نشان پر سب سے زیادہ 70 امیدوار انتخابی میدان میں تھے۔ سندھ سے22،کے پی اور بلوچستان سے گیارہ گیارہ امیدواروں نےاس نشان پرالیکشن میں حصہ لیا تھا۔ لیکن اس وقت نون لیگ کی مخالف جماعتوں نے اس پر شور نہیں مچایاتھا۔

روایتی انتخابی نشان سے کسی جماعت کی محرومی بھی ان دنوں بہت زیر بحث ہے۔ لیکن ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔پیپلز پارٹی کا اولین انتخابی نشان تلوار تھا، لیکن بے نظیر بھٹو نے تمام الیکشن تیر کے انتخابی نشان پر لڑے تھے۔ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات بھی پیپلزپارٹی تیر کے نشان پر لڑے گی۔1977 کے الیکشن کے بعد جب ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پیپلز پارٹی پر کڑا وقت آیا۔ 

ذوالفقار علی بھٹو جو پیپلز پارٹی کے بانی تھے، پھانسی چڑھا دیے گئے اور ضیا کے دور میں جب 1985 کے غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہوئے تو انتخابی نشانات کی فہرست میں تلوار کا نشان ہی نہیں تھا۔صاف ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی کو تلوار کے نشان سے محروم کر کے جماعت کی سیاسی قوت کو کم زور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ بعد ازاں جب 1988 میں الیکشن ہوئے تو پیپلزپارٹی نے تیر کا نشان حاصل کیا کیوں کہ اُس وقت بھی انتخابی نشانات کی فہرست میں تلوار کا نشان نہیں تھا لیکن بعد میں پیپلزپارٹی کے پاس تیر اور تلوار دونوں انتخابی نشان آ گئے۔

پیپلز پارٹی نے 1988 کا الیکشن لڑا تو دست یاب انتخابی نشانوں میں تیر کا نشان موجود تھا،جو اُس کو الاٹ ہوا اور تب سے یہ جماعت تیر کے نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ بہت بعد میں پھر اِس جماعت کو تلوار کا نشان بھی واپس مل گیا۔یاد رہے کہ 2017 میں سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نوازشریف کو نا اہل قرار دیاتھاتو اُن کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیاتھا کہ سزا یافتہ شخص پارٹی چیف نہیں ہو سکتا۔

یوں نوازشریف پارٹی سربراہ نہیں رہے تھے اور نہ اُن کے 2018 کے سینیٹ الیکشن میں جاری کردہ ٹکٹ رکھنے والے اُمیدوار آزاد تصور ہوئے تھے۔مگر آج بعض سیاسی حلقوںکا بیانیہ ایساہے جیسےیہ سب کچھ ملک میں پہلی بار ہورہا ہے۔تاہم وہ ماضی میں اٹھائے گئے ایسے سیاسی اقدامات کی مذمت نہیں کرتے۔

سیاسی جماعت کے اندرونی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی بابت بنایا گیا سیاسی بیانیہ بھی ان دنوں کافی زیر بحث ہے۔اس ضمن میں یہ جاننا ضروری ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کو قانونی حیثیت کب ملی اور کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے انٹرا پارٹی الیکشن کتنے ضروری ہیں؟ اس بارے میں انتخابی و آئینی اُمور کے ماہرین کا موقف ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی شق 2002میں آئین میں شامل کی گئ تھی۔’اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ پارٹی اکاؤنٹس دیں اور الیکشن کمیشن میں جماعت رجسٹر کروالیں۔ یہ 1962 کا قانون تھا۔ 

اس کو بے نظیر بھٹو نے چیلنج کیا اور سپریم کورٹ نے بے نظیر کے حق میں فیصلہ دیا۔2002کا آرڈر اس بارے میں وضاحت کرتا ہے کہ آپ کیا کریں گے تو آپ کو پارٹی نشان ملے گا یعنی آپ کی پارٹی کا آئین ہو، نام ہو۔2017کے ایکٹ میں اُس کے لیے ممبر شپ کی شرط اور فیس بھی رکھ دی گئی۔ لہذا تاریخ میں ایسا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا کہ کسی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن کو مسترد کیا گیا ہو۔ پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن مسترد کر دینے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر پی ٹی آئی اپنی حکومت کے دور میں حزب اختلاف کے ساتھ مل کر انتخابی اصلاحات کرلیتی اور شفاف انداز میں اپنی جماعت میں انتخابات کرالیتی تو اسے آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی سیاسی جماعتوں میں ہونے والے دکھاوے کے انتخابات کے سخت ناقد تھےاور انہیں خاندانی جاگیر کہتے تھے۔ مگر خود اپنی جماعت میں انہوں نے کبھی شفاف انداز میں انتخابات نہیں کروائے اورجب ایک مرتبہ ایسا کیا تونتائج پر جماعت میں شدید اختلافات پیدا ہوئے۔

معاملے کی تحقیقات کےلیےاس وقت جماعت میں شامل جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کو ذمے داری سونپ گئی۔ انہوں نے تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کی تو جماعت کے اندرسے ان کے خلاف شدید مزاحمت سامنے آئی،جس پر انہوں نے جماعت سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ لیکن جماعت کے بانی نے ان کا دفاع کیا اور نہ ہی ان کی رپورٹ پر کبھی عمل درآمد کیا۔

یہ جولائی 2015کی بات ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن پارلیمان اور موجودہ صدر مملکت ، عارف علوی نے یہ ٹو یٹ کی کہ 35پنکچر کے الزامات پر معذرت کرتا ہوں، افواہوں کی بنیاد پر الزام لگانا غلطی تھی۔ پھر کچھ دیر بعد ایک اور ٹویٹ میں اپنے الفاظ کو گول مول کرکےنئی کہانی چھیڑ دی۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کےبانی نے2014کے دھرنے کے دوران کنٹینر پر کھڑے ہوکر ایک نہیں ،دو نہیں ،سوبار 35پنکچر کی کہانی سنائی تھی۔

عارف علوی کا دوسری ٹوئٹ میں کہنا تھاکہ پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات، نعیم الحق کے خیال میں پینتیس پنکچرز کی کہانی درست ہے اور نعیم الحق کے پاس اس حوالے سے بہ راہ راست معلومات بھی ہیں۔ پی ٹی آئی میں بہت سے لوگوں کو یہ یقین تھاکہ الیکشن کی رات نجم سیٹھی نے مسلم لیگ نون کے سربراہ اور بعد میں وزیراعظم بننے والے نواز شریف کو فون کرکے یقین دلایاتھاکہ پینتیس پنکچر لگا دیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کے اس وقت کے چیف آف ا سٹاف نعیم الحق ، جنہوں نے اس کے بارے میں ٹوئیٹ کیا تھا، کا کہناتھا ہے کہ اس کا انکشاف اہم مغربی طاقت کے ایک سفارت کار نے کیا تھا۔

دراصل2013ء کے عام انتخابات کے بعد عمران خان نے 35 پنکچر والی بات کو خوب ہوا دی اور کہا کہ پینتیس حلقوں میں دھاندلی کر کے پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے حکومت بنائی ہے۔ اس بات کو لے کر دو سال تک وہ مسلسل حکومت کے خلاف مہم چلاتے رہے۔ انہوں نے عوامی جلسوں میں بھی اس بات کو خوب اچھالا اور اپنے انٹرویوز کے دوران بھی اس بات پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ بالآخر 2015ء میں انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ انتخابات میں35پنکچرز کی بات محض سیاسی تھی۔

اسی طرح انہوں نے 2022میں سات مہینوں تک جس مسئلے کو بنیاد بنا کر ملک کو ہیجان میں مبتلا رکھااورایک ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف عوامی جلسوں اور انٹرویوز میں مسلسل بہت سخت زبان استعمال کرتے رہے نومبر 2022میں اس کے بارے میں ان کا کہناتھا کہ وہ معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ امریکی سازش کا معاملہ ختم ہو چکا، پاکستان کو دنیا بھر خاص طور پر امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہییں۔

یہ ہوتی ہے انتخابی سیاست اور انتخابی بیانیہ۔ ایسے بہت سے بیانیے اس ملک کے عوام نے سنے اور ان پر یقین کیا اور پھر انہیں بکھرتے اور غلط ہوتے دیکھا۔لیکن ان کی ہمت کو داد دینی پڑتی ہے کہ وہ ہر انتخابات کے موقعے پر پھر ایک نیا یا کچھ تبدیل شدہ بیانیہ ہضم کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔