• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ملک کی صنعتی اور تجارتی پالیسی اُس ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ صنعتی ترقی سے نہ صرف ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں بلکہ ایکسپورٹ سے ملک کو خطیر زرمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے وقت برصغیر میں 921صنعتی یونٹوں میں سے پاکستان کو صرف 34صنعتی یونٹس ملے تھے جن میں ٹیکسٹائل، سگریٹ، چینی، چاول، آٹا اور جننگ کی صنعتیں شامل تھیں اور ان صنعتوں نے 26000سے زائد ملازمتیں فراہم کیں۔ 1958ءسے 1968ءکے دوران جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان نے صنعتی طور پر دوسرے پانچ سالہ منصوبے 1960-65 کے تحت متاثر کن صنعتی ترقی کی جس کا سہرا پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC) اور اس دور کے ڈویلپمنٹ فنانشل انسٹی ٹیوٹیشنز (DFIs) کو جاتا ہے جن میں PICCIC، بینکرز ایکویٹی، ADP اور نیشنل ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن (NDFC) قابل ذکر تھے لیکن بینکوں کے قرضوں میں سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے کے باعث یہ DFIs بند ہوگئے جس سے نئے پروجیکٹس کی فنانسنگ پر منفی اثرات پڑے۔ اس دوران پاک عمان، پاک لیبیا، پاک کویت اور پاک چائنا جیسے نئے DFIs کا قیام عمل میں آیا لیکن پروجیکٹ فنانسنگ میں اُن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے جس سے بڑے درجے کی نئی صنعتوں کے قیام کی حوصلہ شکنی ہوئی۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے ملکی معیشت میں صنعتی اور زرعی سیکٹر کے شعبوں میں کمی اور سروس سیکٹر میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت صنعتی سیکٹر جی ڈی پی کا 20فیصد، زرعی سیکٹر 20فیصد اور سروس سیکٹر 60فیصد تک پہنچ گیا ہے جو پاکستان کی اصل قوت زراعت اور صنعت کی گروتھ میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ہمیں صنعتی ترقی کیلئے صنعت کے شعبے کو بڑھاکر 25فیصد تک لے جانا ہوگا۔پاکستان کی آخری 5سالہ تجارتی پالیسی کا اعلان 21دسمبر 2021ءکو کیا گیا تھا جس میں مالی سال 2025 تک ایکسپورٹ کو 57ارب ڈالرز تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیاہے جو 7روایتی اور 11غیر روایتی شعبوں پر مشتمل ہے۔ تجارتی پالیسی میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا ہدف 40ارب ڈالر، چمڑے کی ایکسپورٹ 1.4ارب ڈالر، چاول کی ایکسپورٹ 3ارب ڈالر، فوڈ اور مشروبات کی ایکسپورٹ 1.5ارب ڈالر، پھل اور سبزیوں کی ایکسپورٹ 1.4ارب ڈالر، سرجیکل آلات اور اسپورٹس گڈز کی ایک ارب ڈالر، آئی ٹی کی ایکسپورٹ 5 ارب ڈالر اور قالین ودیگر مصنوعات کی ایکسپورٹ کا ہدف 3.7ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔

تجارتی پالیسی(STPF)2020-25میں 2020-21میں ایکسپورٹ کا ہدف 25.3ارب ڈالرز، 2021-22 ءمیں 31.2 ارب ڈالرز، 2022-23ءمیں 37.8ارب ڈالرز، 2023-24 میں 45.8ارب ڈالرز اور 2024-25 میں 57.03 ارب ڈالرز سالانہ رکھا گیا ہے۔ نگراں حکومت نے وزیر تجارت گوہر اعجاز کی سربراہی میں ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کی ایکسپورٹ بڑھانے کے لئےایکسپورٹ ایڈوائزری کونسل (EACs) تشکیل دی ہے جس میں ملک کے ممتاز صنعتکار اور ایکسپورٹرز شامل ہیں۔ یہ کونسل 8 ہفتوں میں ملکی ایکسپورٹ 100ارب ڈالر تک بڑھانے کیلئے اپنی عملی تجاویز حکومت کو پیش کرے گی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں پرائیویٹ سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے لیکن پالیسی فریم ورک کی سب سے اہم ضرورت سرمایہ کاروں کو طویل المدت پالیسیوں کا تسلسل اور علاقائی حریفوں سے مسابقتی سکت فراہم کرنا ہے۔پی ڈی ایم حکومت کی بنائی ہوئی خصوصی سرمایہ کاری کونسل (SIFC) نے ملک میں سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے جن ترجیحی شعبوں کا اعلان کیا ہے، ان میں آئی ٹی، زراعت، معدنیات اور دفاعی پیداوار شامل ہیں اور سعودی عرب، یو اے ای، کویت اور قطر سمیت دیگر خلیجی ممالک ان شعبوں کے منصوبوں میں خطیر سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں جو ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع اور معاشی خوشحالی کا باعث ہوگا۔ بابائے قوم نے ایک زرعی اور صنعتی پاکستان کا خواب دیکھا تھا لیکن ہم نے پاکستان کو ٹریڈنگ اسٹیٹ بنادیا جس کا اندازہ ناقابل برداشت امپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔

حال ہی میں چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد نے کراچی میں ممتاز بزنس مینوں سے ایک اہم میٹنگ میں بزنس مینوں کو یقین دلایا کہ ان کے نزدیک منافع کمانا کوئی جرم نہیں اور نیب کی نئی مینجمنٹ انہیں ہراساں نہیں کرے گی۔

2023 ءمیں ہماری جی ڈی پی گروتھ 0.17 تھی جسے بڑھا کر ہمیں 5سے 6فیصد تک لے جانا ہوگا۔ عالمی ایکسپورٹ میں ہمارا حصہ 0.18 فیصد سے کم ہوکر 0.13فیصد رہ گیا ہے جسے بڑھا کر 0.25فیصد تک لے جانا ہوگا جبکہ پیداواری لاگت میں کمی، افریقہ اور وسط ایشیائی ممالک کی نئی مارکیٹوں تک رسائی، مصنوعات اور منڈیوں کا تنوع اور مسابقتی سکت بڑھا کر ہمیں اپنی ایکسپورٹ میں اضافہ کرکے صنعتکاری کو فروغ دینا ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین