• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

( گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ ہفتے میرا پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے حلقہ این اے 127 لاہور کے حوالے سے جنگ اخبار میں کالم شائع ہوا تو ملک بھر سے جیالوں نے سوشل میڈیا پر اور فون کالز کر کے کالم پر اپنی رائے دی اور ساتھ ہی چند غلطیوں کی تصیح فرمائی کہ کالم میں ذوالفقار بدر کی جگہ بار بار مرحوم جہانگیر بدر کا نام آتا رہا اور پی پی پی کے حلقوں سے یہ سوال بھی کئےگئے کہ عامر میر اور ذوالفقار بدر کے حوالے سے کالم میں جوچند باتیں لکھی گئیں وہ اس طرح قارئین تک نہ پہنچ سکیں جس طرح پہنچنی چاہئے تھیں۔ سر دست میں ذوالفقار بدر کا ذکر کرتا ہوں جنہیں پی پی پی نے لاہور میں این اے 127 کی انتخابی مہم کا انچارج بنایا ہوا ہے۔ موصوف پی پی پی کارکنوں میں اپنے والد جناب جہانگیر بدر جیسی جگہ نہیں بنا پائے، این اے 127 کے جیالے اور پی پی پی لاہور کے نوجوان کیوں سمجھتے ہیں کہ جہانگیر بدر کا بیٹا بھی جہانگیر بدر جیسا ہو، لیکن خیر وہ حلقے میں اپنی بساط کے مطابق کام کررہے ہیں،جبکہ فیصل میر یقینی طور پر پی پی پی سے ہمیشہ وابستہ رہے ہیں مگر انھوں نے جب جب انتخاب لڑا وہ جیتنے میں ناکام رہے حالانکہ لاہور میں ان کے بھائیوں کا اچھا خاصہ اثر و رسوخ ہے۔ فیصل میر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے دورہ لاہور میں تو سامنے آتے ہیں مگر مزاحمتی سیاست یا پھر انتخابی سیاست کے دائو پیچ نہیں جانتے بلاشبہ ایک بہترین آدمی ہیں مگر سیاسی حوالے سے لاہور کے جیالوں میں اور خاص طور پر پی پی پی لاہور کی تنظیم اور فیصل میر کی سوچ مختلف رہی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ لاہور کی مقامی قیادت اور فیصل میر ایک پیج پر نظر نہیں آتے۔ جبکہ اگر اسلم گل جیسے غریب کارکن اور پرانے جیالے کا نام لیا جائے تو ہم نے دیکھا کہ عمرانی آمریت میں انھوں نے لاہور کے اسی حلقے سے کم و بیش 34ہزار ووٹ حاصل کیے جس کا مطلب یہ ہے کہ لاہور میں پی پی پی کا ایک بڑا ووٹ بینک موجود ہے اور اگر ایک غریب کارکن 34ہزار ووٹ اس حلقے سے لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کامیابی یقینی نظر آتی ہے۔ اس حلقے میں رہنے والے مختلف مسلک اور اقلیتیں پہلے ہی پی پی پی چیئرمین کی حمایت کا اعلان کر چکی ہیں جبکہ دوسری طرف اس حلقے میں صوبائی نشست پر پی پی پی ٹکٹ پر انتخابات لڑنے والے فیاض بھٹی کو پی پی پی کا نشان تیر الاٹ نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ چند قوتوں کا اندازہ ہوگیا کہ یہ حلقہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جیتنے کی پوزیشن میں ہیں، ویسے بھی روایتی طور پر اس حلقے میں پی پی پی کے اثر ورسوخ کی چھاپ بہت گہری ہے، اور اس بار انتخابی مہم میں لاہور کے ایسے جیالے بھی متحرک ہیں جو اس سے پہلے ضیاءالحق کی آمریت کے خلاف مزاحمت کرتےہوئے تاریخ کے اہم کردار بن کر ابھرے اور پھر گوشہ نشین ہوگئے لیکن شہید بینظیر بھٹو کے بیٹے کے ساتھ لاہور کے یہ جیالے اور جیالیاں آج صبح سے شام اس حلقے میں انتخابی مہم چلاتے نظر آرہے ہیں یہاں مسیحی برادری اس بار پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے حق میں کھل کر سامنے آچکی ہے وہ گرجا گھروں میں بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی مہم کے پروگرام منعقد کررہی ہے اور اس حلقے میں اس برادری کا ووٹ بینک فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف طاہر القادری کی جماعت بھی اس حلقے میں ہزاروں کی تعداد میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے اور اس جماعت نے بھی بلاول بھٹو زرداری کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ ساتھ ساتھ ہمارے دوست اور سندھ کے سابق صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کا خاندان بھی لاہور کی مزاحمتی سیاست میں اہم مقام رکھتا ہے اور ناصر حسین شاہ کے صاحبزادے لاہور میں متحرک نظر آتے ہیں ۔این اے 127 کے حلقے میں اس وقت بہت دلچسپ صورتحال ہے جہاں ن لیگ مسیحی برادری اور دیگر برادریوں کو بار بار یہ باور کروارہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری سندھی ہے اور لاہور سے جیت بھی گیا تو آپ کے مسائل حل نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ جیت کر واپس سندھ چلا جائے گا، لوگ ن لیگ سے سوال کرتے ہیں کہ سندھ تو پاکستان کا حصہ ہے مگر ن لیگ کا رہنما تو مشکل وقت میں جدہ اور لندن چلا جاتا ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری کا نہ صرف لاہور میں گھر ہے بلکہ رشتے داری بھی ہے اور اس خاندان کی تیسری نسل لاہور کو اپنا گھر مانتی ہے اور لاہوری عوام کے دلوں کی دھڑکن رہی ہے۔ جو سعادت 1986 میں شہید بینظیر بھٹو کو لاہور میں نصیب ہوئی وہ آنے والی نسل کے کسی رہنما کے نصیب میں آنا مشکل ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ این اے 127 میں بلاول بھٹو زرداری کے خلاف سازشیں شروع ہوگئی ہیں جنہیں وہ عوام کی طاقت سے ناکام بنائے گا مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ اس انتخابی مہم کو اسلم گل، سہیل ملک اور باجی صغیرہ جیسے جیالوں کے سپرد کردیا جائے میں تو کہتا ہوں کمپین کا انچارج سہیل ملک کو بھی شامل کردیا جائے ۔ فیصل میر اور ذوالفقار بدر دونوں کے کے ساتھ ایک کمیٹی بناکر الیکشن ورک ان کے زیر قیادت کردیا جائے تو انتخابات میں جیت سو فیصد ممکن ہے۔

تازہ ترین