سپریم کورٹ نے آزاد امیدوار ثناءاللہ مستی خیل کو این اے 91 بھکر سے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی، ساتھ ہی الیکشن کمیشن کو ان کا نام بیلٹ پیپرز میں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونل کا 5 جنوری کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے آزاد امیدوار ثناء اللہ مستی خیل کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
عدالت میں دوران سمات اعتراض کنندہ کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ثناءاللہ مستی خیل اشتہاری ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ ثناءاللہ مستی خیل نے کیا جرم کیا ہے تفصیل بتائیں، کیا دہشتگردی یا اغوا برائے تاوان کا کیس ہے؟ یہ کوئی خطرناک آدمی ہیں تو ہم بھی الیکشن نہیں لڑنے دیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ ثناءاللہ مستی خیل اشتہاری نہیں ہیں ان کی ضمانت ہوچکی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ثناء اللہ مستی خیل پر ٹائر جلانے کا کیس ہے، ہائیکورٹ کو کیا جلدی تھی جو ٹریبونل کا فیصلہ ایک دم ہی کالعدم کردیا؟
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے بھی اتفاق کیا اور کہا کہ ایک ہی دن میں درخواست لگا کر فیصلہ کردیا گیا، اگلے دن کی تاریخ ہی دے دیتے۔ کسی کوانتخابات سے باہر نکالنا فرق کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن حکام سے استفسار کیا کہ کیا بیلٹ پیپرز چھپ چکے ہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن حکام نے جواب دیا کہ بیلٹ پیپرز پرنٹنگ کیلئے تیار ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ڈی جی پولیٹیکل فنانس ونگ نے بتایا کہ بیلٹ پیپرز بن چکے، بیلٹ پیپرز کے لیے محدود کاغذ ہے، بیلٹ پیپرز کے لیے کمپوزنگ بھی ہوچکی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ابھی کئی مرحلے رہتے ہیں، ایک دم سب کچھ کیسے کیا گیا۔