آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال:1-کیا ڈیری فارم کی گائے وغیرہ پر زکوٰۃ ہے؟
2-اسی طرح کچھ لوگ قربانی کے جانور تجارت کے لیے پالتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
3-اس میں بیل کی زکوٰۃ کا نصاب بتا دیں؟
جواب:1- ڈیری فارم میں جو گائیں دودھ کے حصول کے لیے پالی جاتی ہیں ان کو چوں کہ چارہ خود خرید کر کھلایا جاتا ہے؛ اس لیے وہ ’’سائمہ‘‘ جانور نہیں ہیں، لہٰذا ڈیری فارم کی گائے پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، کیوں کہ جانوروں پر زکوٰۃ واجب ہونے کی من جملہ شرائط میں سے ایک شرط ’’سائمہ‘‘ ہونا بھی ہے، البتہ ڈیری فارم کی گائے سے جو دودھ حاصل ہوگا ،اس کی آمدنی اگر نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر سال گزرنے کی صورت میں ڈھائی فی صد زکوٰۃ واجب ہوگی۔
2- قربانی کے جانور جو تجارت کے لیے پالے جاتے ہیں، ان کی مالیت نصابِ زکوٰۃ کے بقدر ہونے کی صورت میں ان کی مجموعی مالیت کا ڈھائی فی صد بطورِ زکوٰۃدینا واجب ہوگا ،بشرطیکہ ان جانوروں پر سال گزر گیا ہو، یا مذکورہ مالِ تجارت کا مالک پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو زکوٰۃ کا سال مکمل ہونے پر دیگر مال کے ساتھ تجارت کے جانوروں کی مالیت کی بھی زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔
3- بیل اگر تجارت کے لیے ہو تو اس کی مالیت کے اعتبار سےاس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، یعنی اگر اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو تو سال گزرنے کی صورت میں کل مالیت کا ڈھائی فی صد بطورِ زکوٰۃ واجب ہوگا۔
اور اگر بیل تجارت کے لیے نہ ہوں، بلکہ افزائش نسل کے واسطے ہوں اور سال کا اکثر وقت باہر سے چر کر وہ اپنا گزارا کرتے ہوں تو یہ بیل سائمہ کہلائے گا اور اس کی زکوٰۃ کا نصاب بھی وہی ہوگا جو سائمہ گائے کی زکوٰۃ کا نصاب ہے، سائمہ گائے کی زکوٰۃ کا نصاب یہ ہے کہ اگر تیس گائے پر پورا سال گزرگیا تو اُن پر زکوٰۃ واجب ہوگی ، تیس سے لے کر انتالیس گائے پر ایک سالہ گائے یا بیل، پھر چالیس پر ’’دو سالہ‘‘ ایک گائے یا بیل، پھر ساٹھ پر دو عدد ’’ایک سالہ‘‘ گائے یا بیل، پھر ستر پر ایک ’’ایک سالہ‘‘ اور ایک ’’دو سالہ‘‘ ، اسی طرح ہرتیس پر ایک ’’ایک سالہ‘‘ ، اور ہر چالیس پر ایک ’’دو سالہ‘‘ واجب ہوگا، او رجو عدد تیس اور چالیس دونوں کے درمیان تقسیم ہوجائے اس میں اختیار ہے کہ تیس کے حساب سے زکوٰۃ دے یا چالیس کے حساب سے ، مثلاً ایک سو بیس پر چاہے چار ’’ ایک سالہ‘‘ دے، یا تین ’’دو سالہ‘‘ دے۔