سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی کی رہنما صنم جاوید اور شوکت بسرا کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔
عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے شوکت بسرا کو این اے 163 بہاولنگر سے الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ صنم جاوید کو این اے 119، 120 اور پی پی 150 سے الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے صنم جاوید اور شوکت بسرا کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کے فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔
عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو صنم جاوید اور شوکت بسرا کو انتخابی نشان دینے کا حکم بھی دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ 8 فروری کو ان حلقوں میں الیکشن شیڈول کے مطابق انتخابات کرائے جائیں۔
دورانِ سماعت درخواست گزاروں کے وکیل نے بتایا کہ صنم جاوید کے کاغذاتِ نامزدگی الگ بینک اکاؤنٹ نہ کھلوانے پر مسترد ہوئے، صنم جاوید نے اپنے والد کے ساتھ مشترکہ اکاؤنٹ کاغذات میں ظاہر کیا تھا، اعتراض کیا گیا کہ الیکشن کے لیے الگ اکاؤنٹ کیوں نہیں بنایا گیا، صنم جاوید گزشتہ 9 ماہ سے جیل میں ہیں، جیل میں موجود خاتون بینک اکاؤنٹ کیسے کھلوا سکتی ہے؟ دوسری جانب شوکت بسرا نے ایک مشترکہ دوسرا الگ اکاؤنٹ ریٹرننگ افسر کو دیا، جس پر ریٹرننگ افسر نے کہا کہ 3 بجے کا وقت ختم ہو چکا۔
جسٹس عرفان سعادت خان نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے 3 بجے کا وقت کہاں سے نکالا ہے؟ الیکشن شیڈول میں تو نہیں لکھا کہ 3 بجے تک کاغذات جمع ہوں گے، مقررہ وقت کے آدھے گھنٹے بعد کاغذات جمع کرانے والوں کو الیکشن سے محروم کیسے رکھا جا سکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون میں مشترکہ اکاؤنٹ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
وکیل نے بتایا کہ صنم جاوید نے 21 دسمبر کو اوتھ کمشنر کے سامنے 22 دسمبر کی تاریخ کا بیانِ حلفی دیا، اوتھ کمشنر نے صنم جاوید کے دستخط کی تصدیق کی، آر او نے کہاکہ 22 دسمبر کو صنم جاوید سے جیل میں کوئی نہیں ملا تو کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہو جائیں گے۔
جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ ریٹرننگ افسر نے از خود کیسے صنم جاوید کے دستخط کی تصدیق کی؟
وکیل شاہزیب رسول نے جواب دیا کہ آر او کے خط پر جیل حکام نے بتایا ہے کہ 22 دسمبر کو کوئی ملاقاتی نہیں آیا، اس پر کاغذات مسترد کر دیے، صنم جاوید 10 مئی سے جیل میں ہیں اور ان کے شوہر بھی گرفتار ہیں۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ صنم جاوید نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ انہوں نے 22 دسمبر کو دستخط کیے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک ہی امیدوار کے پیچھے سپریم کورٹ تک آیا، پھر کہتے ہیں کہ انفرادی شخص کے خلاف نہیں۔
جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ ریٹرننگ افسر از خود انکوائری کیسے کرا سکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ آر او صنم جاوید کے کاغذات کے لیے مائیکرو اسکوپ لے کر اتنی تگ و دو کر رہے تھے؟ اتنی مشقت، اتنی محنت، اتنی کوشش کی ریٹرننگ افسر نے۔
جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ آر او نے کاغذات مسترد کرنے کے لیے اسکروٹنی کے آخری دن 30 دسمبر تک انتظارکیوں کیا؟
صنم جاوید کے وکیل نے جواب یدا کہ خصوصی کیسز کو آخری دن کے لیے رکھا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ الیکشن کے لیے امیدوار مشترکہ اکاؤنٹ بھی مختص کر سکتا ہے۔