• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے پرویز الہٰی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیدی

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب و پی ٹی آئی رہنما چوہدری پرویز الہٰی کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کےخلاف اپیل پر دوبارہ سماعت کرتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پرویز الہٰی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔

سپریم کورٹ نے پی پی32 گجرات کی حد تک پرویز الہٰی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی ہے۔

عدالتِ عظمٰی نے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پرویز الہٰی کا نام اور انتخابی نشان بیلٹ پیپر پر چھاپنے کی ہدایت کر دی جس پر پرویز الہٰی نے باقی تمام انتخابی حلقوں سے دستبرداری اختیار کر لی۔

جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللّٰہ بینچ میں شامل تھے۔

پرویز الہٰی کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں ابھی تک ریٹرننگ افسر کا مکمل آرڈر بھی نہیں ملا، اعتراض تھا کہ ہر انتخابی حلقے میں انتخابی خرچ کے لیے الگ اکاؤنٹ نہیں کھولے گئے، پرویز الہٰی 5 حلقوں سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔

جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے سوال کیا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ 5 حلقوں کے لیے 5 اکاؤنٹس کھولے جائیں؟

پرویز الہٰی کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ اگر انتخابی مہم میں حد سے زائد خرچہ ہو تو الیکشن کے بعد اکاؤنٹس کو دیکھا جاتا ہے، کاغذاتِ نامزدگی وصول کرنے والے دن پولیس نے گھیراؤ کر رکھا تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ان باتوں کو چھوڑیں قانون کی بات کریں۔

پرویز الہٰی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ایک اعتراض یہ عائد کیا گیا کہ پنجاب میں 10 مرلہ پلاٹ کی ملکیت چھپائی گئی، اعتراض کیا گیا کہ 20 نومبر 2023ء کو 10 مرلہ پلاٹ خریدا گیا، میرے مؤکل نے ایسا پلاٹ کبھی خریدا ہی نہیں، اس وقت وہ جیل میں تھے، ہماری دوسری دلیل یہ ہے کہ اثاثے ظاہرکرنے کی آئندہ کٹ آف ڈیٹ 30 جون 2024ء ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کی ایسی تشریح کرنی ہے کہ لوگ اپنے حق سے محروم نہ ہوں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جائیدادیں پوچھنے کا مقصد جیتنے سے پہلے اور بعد کے اثاثے دیکھنا ہوتا ہے، آپ پلاٹ کی ملکیت سے انکار کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔

پرویز الہٰی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پھالیہ میں پلاٹ لینے کی ایسی تاریخ ڈالی گئی جب پرویز الہٰی جیل میں تھے، پرویز الہٰی پہلی بار الیکشن نہیں لڑ رہے، 2 بار وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پلاٹ کا اعتراض تب بنتا تھا جب جج کا فیصلہ ہو کہ پلاٹ فلاں شخص کا ہے۔

پرویز الہٰی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ایک ہی وقت پرویز الہٰی، مونس الہٰی، قیصرہ الہٰی کی ان ڈکلیئرڈ جائیداد نکل آئی، آر او نے ہمیں فیصلہ بھی نہیں دیا کہ کہیں چیلنج نہ کر لیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ اچانک آپ کی اضافی جائیداد نکل آئی ہے، آپ یہ اضافی جائیداد کسی فلاحی ادارے کو دے دیں۔

پرویز الہٰی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں تو کہتا ہوں کہ حکومت کو اس جائیداد پر اعتراض ہے تو خود رکھ لے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پرویز الہٰی پر جو اعتراض لگایا گیا اس کا تو بعد میں بھی ازالہ ممکن ہے۔

پرویز الہٰی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت اگر یہ وضاحت کر دے تو آئندہ ایسے بیوقوفانہ اعتراض نہ لگیں۔

جسٹس مندوخیل کے ریمارکس پر قہقہے

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وہ کوئی اور طریقہ نکال لیں گے، جس پر عدالت میں قہقہے گونجنے لگے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نقل کے لیے بھی عقل ہونی چاہیے، جلدی جلدی دلائل دیں، بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام تیزی سے جاری ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ ہر حلقے کے لیے الگ الگ بینک اکاؤنٹس ہونے چاہئیں؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ سب کچھ ہو رہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پرویز الہٰی کے مخالف امیدوار ارسلان سرور سے سوال کیا کہ آپ کو 10 مرلہ پلاٹ کا علم کیسے ہوا؟

مخالف امیدوار ارسلان سرور نے پنجابی میں جواب دیا کہ سانوں ہور وی بڑی چیزاں دا علم اے۔

مخالف امیدوار کے جواب پر پھر قہقہے گونجنے لگے

مخالف امیدوار ارسلان سرور کے جواب پر کمرۂ عدالت میں قہقہے گونجنے لگے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے چوہدری پرویز الہٰی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔

سپریم کورٹ نے پی پی 32 گجرات کی حد تک پرویز الہٰی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی ہے۔

عدالتِ عظمٰی نے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پرویز الہٰی کا نام اور انتخابی نشان بیلٹ پیپر پر چھاپنے کی ہدایت کر دی جس پر پرویز الہٰی نے باقی تمام انتخابی حلقوں سے دستبرداری اختیار کر لی۔

اس سے قبل سماعت کا احوال

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج صبح سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب و پی ٹی آئی رہنما چوہدری پرویز الہٰی کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے وکلاء کو 11 بجے تک کی مہلت دی تھی۔

دورانِ سماعت پرویز الہٰی کے وکیل فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے کہا کہ معلوم ہے کہ انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز چھپنا شروع ہو چکے ہیں۔

عدالت نے کیس میں فریقین کو دلائل کی تیاری کے لیے 11 بجے کا وقت دے دیا۔

مخالف فریقین نے استدعا کی کہ عدالت کیس کی تیاری کے لیے2 دن کا وقت دے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ آج ہی تیاری نہیں کریں گے تو پرویز الہٰی کو انتخابات لڑنےکی اجازت دے کر 1 ماہ بعد کیس مقرر کریں گے۔

شوکت بسرا، صنم جاوید کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو مہلت

سپریم کورٹ آف پاکستان نے شوکت بسرا اور صنم جاوید کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کے خلاف اپیل پر سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تیاری کی مہلت دے دی۔

عدالتِ عظمیٰ نے شوکت بسرا کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کے خلاف اپیل پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کو تیاری کے لیے 11 بجے تک کا وقت دیا۔

شوکت بسرا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرے مؤکل کے کاغذات مشترکہ اکاؤنٹ کی وجہ سے مسترد ہوئے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا کاغذات پر کسی نے اعتراض کیا تھا؟

شوکت بسرا کے وکیل نے جواب دیا کہ ریٹرننگ افسر نے خود اس نکتے پر کاغذات مسترد کیے، مؤکل نے ریٹرننگ افسر کو نیا سنگل اکاؤنٹ دینے کا کہا، اس کے باجود کاغذات مسترد ہو گئے۔

جسٹس منیب اختر نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن اس نکتے پر 11 بجے تیاری کر کے جواب دے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے صنم جاوید کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کے خلاف اپیل پر سماعت کرتے ہوئے بھی الیکشن کمیشن کو 11 بجے تک تیاری کا وقت دے دیا۔

درخواست گزار صنم جاوید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں بھی مشترکہ اکاؤنٹ کا نکتہ ہے، صنم جاوید کے کاغذات پر دوسرا اعتراض جیل سپرنٹنڈنٹ کے دستخط نہ ہونے کا لگایا گیا، تیسرا اعتراض صنم جاوید کے دستخط جعلی ہونے کا لگایا گیا۔

جسٹس منیب اخترنے سوال کیا کہ کیا اس کیس میں ریٹرننگ افسر کو نیا سنگل اکاؤنٹ ایڈجسٹ کرنے کی درخواست دی گئی۔

صنم جاوید کے وکیل نے جواب دیا کہ نہیں اس کیس میں سنگل اکاؤنٹ ایڈجسٹ کی ریٹرننگ افسر کو کوئی درخواست نہیں دی گئی۔

جسٹس منیب اختر نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن اس کیس میں بھی11 بجے تیاری کر کے جواب دے۔

قومی خبریں سے مزید