• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں تھک چکا ہوں، یہاں مقید رہ کر تنگ آگیا ہوں۔ یہاں سے نکل کر اس شان دار دنیا میں جانا، اور ہمیشہ وہاں رہنا چاہتا ہوں۔‘‘ (ایملی برونٹ :ودرنگ ہائٹس)

آج ہم بیم و رجا کے اسی دوراہے پر سفر آزما ہیں۔ کبھی اٹھنے والے قدم تیزی سے ایک انتہا کے قریب ہوتے ہیں، کبھی دوسری کے۔ یہ گھڑیال کے پنڈولم کی طرح ہے جو ہمیشہ حرکت میں رہتے ہوئے لوگوں کے تخیل کو تحریک دیتا ہے کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ امید کی یہ خوشبو دکھی دلوں پر مرہم رکھتی ہے۔ ملک پر راج کرنیوالے لیڈروں کے عوام کو لگائے گئے لاتعداد زخموں کی مسیحائی کرتی ہے۔ زخم نہ صرف سفاکیت سے لگائے گئے ہیں بلکہ اس پر کوئی تاسف بھی نہیں اورنہ کوئی تلافی ہے۔

ماضی کے تمام معیارات ایک طرف، آٹھ فروری کو ہونیوالے انتخابات سے وابستہ امید اور جذبہ فقید المثال ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ دن نیک فال کے رنگوں میں رنگا جا چکا۔ لوگ نجات کے قدموں کی چاپ سن رہے ہیں، زندگیوں میں روشنیوں کی جگمگاہٹ محسوس کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ آج جذبات کی روانی بہت زیادہ ہے، لیکن بے تابی بھی پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ گرچہ جذبہ ایک فطری تحریک ہے، لیکن انکی بے تابی کا تعلق ان گنت چرکوں سے ہے جو ماضی کی وعدہ خلافیوں نے لگائے تھے۔ وہ وعدے جو وفا نہ ہو سکے اور عوام پہلے سے زیادہ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقابل تصور واقعات سے بوجھل صبر کا پیمانہ چھلکنے کو ہے۔ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو رہی ہے۔

انتخابات میں دس دن رہ گئے ہیں۔ عوام کی امیدیں آسمان کو چھو رہیں تو دوسری طرف غیر یقینی کی فضابھی بہت گہری ہے۔ اگرچہ انھوں نے امید کا دامن تھاما ہو اہے، اور وہ منزل کی راہیں اپنے ہاتھوں سے تراشنے کیلئے کمر بستہ ہیں، لیکن غیر یقینی پن کی چٹان راہ میں حائل ہے۔ امید کا گلشن مہکے گا، لیکن غیر یقینی پن کی فضا بھی ایک حقیقت ہے۔ سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ کیا انتخابی عمل آزادانہ اور منصفانہ ہونے جا رہا ہے یا انجینئرنگ کے ذریعے کچھ کے فائدے اور دوسروں کے نقصان کا بندوبست ہو گا؟ اس عمل نے ماضی میں ہمیشہ قومی جسد پر چرکا لگایا، لیکن واضح ہوتے ہوئے حقائق نتائج کو تبدیل کرنے کیلئے اس بار فقید المثال دھاندلی کی خبر دیتے ہیں۔ شواہد بتاتے ہیں کہ ایک جماعت دیگر پر زبردست فتح حاصل کرنے جا رہی ہے۔ لیکن اگر نتائج کو تبدیل کرنے کا چارہ کیا گیا، تو اس کے نتیجے میں ہونے والی بدامنی پرتشدد بھی ہو سکتی ہے۔

اشارے بتاتے ہیں کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اقتدار پر قابض لوگ واضح طور پر متعصب بن چکے ہیں۔ یہ تعصب عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ان کے ہر اقدام سے ظاہر ہوتا ہے۔ جعلی اور من گھڑت الزامات کی بنیاد پر چیئرمین کی تاحیات گرفتاری سے لے کر ان کے آئینی حقوق سے انکار اور پوری ریاستی طاقت کو انتہائی وحشیانہ طریقے سے استعمال کرتے ہوئے پارٹی کے ڈھانچے کو منظم طریقے سے تباہ کرنے تک، سینکڑوں کارکنوں کی طویل قید، قیادت کی جبری گمشدگی اور نت نئی سازشوں سے لے کر اس کے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھیننے، ان کے تجویز کنندگان اور حامیوں کا اغوا، کارکنوں کو سیاسی سرگرمیوں کیلئے برابری کا میدان فراہم کرنے سے انکار۔ پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کیلئے ہر چال چل کر دیکھ لی گئی ہے۔

لیکن ایک ایسا عنصر ہے جو سازشیوں کا راستہ روکتا ہے: یہ پی ٹی آئی کے حامیوں کا جذبہ ہے جو سر جھکانے سے انکاری ہے۔ ریاستی اداروں کے ہاتھوں اذیت ناک سلوک کے باوجود وہ عمران اور پارٹی کی حمایت کا کوہ گراں ثابت ہوئے ہیں۔ وہ یہ کام اس وقت کر رہے ہیں جب رات کے اندھیرے میں ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور توڑ پھوڑ کی گئی، ان کے کاروبار تباہ کیے گئے، ان کے اکاؤنٹس بلاک کر دیے گئے، ان کے قریبی عزیزوں کو غیر معینہ مدت کیلئے غیر قانونی حراست میں رکھا گیا، اور جب خوف کا سایہ مسلسل ان کے سروں پر لٹکتی تلوار کی طرح تھا۔ لیکن یہ وہ جذبہ ہے جو شکست کھانے کیلئے بنا ہی نہیں۔ وہ انتخابات کے دن کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اپنی تقدیر کو بدلنے کیلئے ووٹ ڈالیں۔ یہ وہ دن کہ جس کی آس میں انھوں نے برس ہا برس تک وعدہ شکنی کے زخم کھائے ہیں۔

خان ان کی جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے رہنمائی کر رہے ہیں اس عزم کے ساتھ جو لازوال ہے۔ اپنے اغوا کاروں کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے بعد وہ ملک کی سیاسی تاریخ کو غیر یقینی پن کے خونچکاں ہاتھوں سے دوبارہ رقم کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد انھیں بھلا دیا جائیگا۔ اب وہ اس شخص کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں جو صرف اپنے نظریات کو مقدم رکھتا ہے اور جس کی لغت میں پسپائی کا لفظ ہی موجود نہیں۔ وہ ایک ایسا فائٹر ہے جس کا دل اپنے ملک کے محروم لوگوں کے ساتھ دھڑکتا ہے اور اس کا بنیادی چارٹر ہمیشہ ان کو راحت پہنچانا رہا ہے۔ اس کی غریب دوست اسکیمیں، خواہ وہ احساس پروگرام کا حصہ ہوں یا کوویڈ کے دوران لاک ڈائون سے انکار اور غریب لوگوں کو زندہ رہنے کے ذرائع سے محروم کرنا، انکے اس عظیم مشن کا ثبوت ہیں جس کی انھوں نے بے خوفی سے پیروی کی۔ وہ جیل سے رہنمائی کرتے ہوئے آج بھی اگلے قدموں پر کھیل رہے ہیں۔ وہ اپنے ٹائیگروں کی ہمت کو مہمیز دے رہے ہیں کہ وہ صرف 8 فروری کو ووٹ ڈالیں بلکہ اسکے تقدس کی بھی حفاظت کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی اسے چوری نہ کر سکے۔ اس طرح وہ ملک اور اپنی تقدیر بدلیں گے۔

بڑھتی ہوئی غیر یقینی کے باوجود یہ لوگوں کا ناقابل تسخیر جذبہ ہے جو انھیں منزل تک پہنچاتا ہے۔ یہ انکے ووٹ کی طاقت ہے جسے وہ خود کو بااختیار بنانے کیلئے استعمال کریں گے۔ متکبروں کے قلعے پہلے ہی خوف سے لرزاں ہیں۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکریٹری انفارمیشن ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین