• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ہمارے ہاں قومی شناختی کارڈ دیسی طریقے سے بنا کرتے تھے تب ان میں شناختی علامت کا خانہ بھی ہوا کرتا تھا۔یہ شناختی علامت عام طور پر کوئی ایسا زخم ہوا کرتا تھا جو پہلی ہی نظر میں ہر کسی کو دکھائی دے جاتا تھا۔ آج سیاسی جماعتوں کی شناخت کے لیے بھی کچھ نشان مقرر ہیں۔یہ نشان انھیں اگرچہ ہمارا الیکشن کمیشن دیتا ہے لیکن اس کے حصول میں خود جماعتوں کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے۔اگرچہ یہ نشان صرف انتخابات کے دنوں میں کام آتے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں عام حالات میں بھی اپنے نشانات کی شہرت کا سامان کرتی رہتی ہیں۔ان نشانات کا ذکر تقریروں، گفتگو، خطابات اور میڈیائی مکالموں میں بار باراور زور و شور سے کیا جاتا ہے۔البتہ آزاد امیدواروں کا معاملہ کچھ الگ ہے۔انھیں انتخابی نشانات کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد الاٹ کیے جاتے ہیں۔

انتخابی نشانات اگرچہ بہت غور و فکر کے بعد حاصل کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں ظرافت اور چھیڑ چھاڑ کا پہلو نکل ہی آتا ہے۔اب تیر ہی کے نشان ہی کو لے لیجیے۔ہمارے عوام کے سینے پہلے ہی چھلنی ہیں اور اس کے باوجود ایک پارٹی کے امیدوار دن رات تیر چلنے کی ’’نوید جاں فزا‘‘ سنا رہے ہیں۔گویا وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی عوام میںزخم برداشت کرنے کی سکت باقی ہے۔تیر کسی زمانے میں جنگ جووں اور شکاریوں کا ہتھیار ہوا کرتا تھا۔جنگجو اپنے دشمنوں پر زہر میں بجھے تیروں سے حملہ آور ہوا کرتے تھے اور شکاری جنگلی جانوروں کو تیر سے نشانہ بنایا کرتے تھے۔دونوں صورتوں میں تیر جان داروں کی جانیں لینے کا باعث بنا کرتے تھے۔آج تیر اندازی کا زمانہ تو نہیں رہا لیکن لفظی تیر آج بھی چلائے جاتے ہیں۔اب اصلی تیر کہیں دیکھنے میں نہیں آتے۔تیر کا ذکر بس ہماری اردو شاعری میں رہ گیا ہے۔

دشمن پہنچ گیا ہے لہو کی لکیر تک

اور ہم کہ جمع کر نہ سکے اپنے تیر تک

......................

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

اسی طرح ہماری ایک اور سیاسی جماعت کا انتخابی نشان شیر ہے۔شیر وہ جنگلی جانور ہے جو اپنے ارد گرد رہنے والے کم زور جانوروں کا شکار کرتا ہے۔ ہمیں تو نیشنل جیوگرافک کے پروگرام دیکھ کر پتا چلا ہے کہ شیر پر مختاری کی ناحق تہمت ہے۔وہ تو شکار کی زحمت ہی نہیں کرتا۔شکار تو شیرنی کرتی ہے۔شیر تو ہر وقت بادشاہت کے نشے میں مخمور رہتا ہے۔ویسے ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ٹھیک ہی ہے۔ہم مردوں نے بھی تو اپنے گھروں کے کچن اپنی بیگمات ہی کے حوالے کیے ہوئے ہیں۔یعنی دکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔سچ یہ ہے کہ شیر اپنی بادشاہت کا رعب قائم رکھنے کے لیے کبھی کبھار شکار کرتا ہے۔اگر وہ شکار نہ کرے تو جنگل کے کم زور جانور تو اس سے ڈرنا ہی چھوڑ دیں۔میں نےشیروں کو بھی شکار کرتے دیکھا ہے اور کتوں کو بھی۔شیر کے بارے میں ایک بات بہر حال کہوں گا کہ اسے شکار کا ڈھب آتا ہے۔وہ اپنے شکار کی ہمیشہ گردن دبوچتا ہے۔پہلے اس کا دم گھونٹ کر اسے ٹھنڈا کرتا ہے۔پھر مزے سے کھاتا ہے۔اس کے مقابلے میں کتے نہایت بدتمیز اور بے رحم واقع ہوئے ہیں۔وہ غول کی صورت میں بھوں بھوں کرتے آتے ہیں اور اپنے شکار کو مختلف مقامات سے بھنبھوڑتے ہیں۔نوچتے ہیں۔کاٹتے ہیں۔شکار کو خوب تکلیف دیتے ہیں۔اسے زندہ ہی کھاتے رہتے ہیں۔شیر اپنے شکار کو کم از کم اتنی تکلیف تو نہیں دیتا۔کتوں کے مقابلے میں کتنا اچھا ہے شیر !شیر سرکس کا ہو تو اچھا بچہ بن کر رہتا ہے۔کسی کو کچھ نہیں کہتا۔اپنی حرکات و سکنات سے دیکھنے والوں کا دل بہلاتا رہتا ہے۔سرکس کا شیر پنجرے میں ہو یا پنجرے سے باہر ، ہر حال میں مطمئن دکھائی دیتا ہے۔صبر شکر کرتا ہے۔سرکس کے شیر کو آپ پنجرے سے باہر نکال سکتے ہیں لیکن اس کے دماغ سے آپ پنجرا نہیں نکال سکتے۔اپنا کام پورا ہوتے ہی آپ ہی آپ پنجرے میں چلا جاتا ہے۔

ہماری ایک سیاسی جماعت نے کرکٹ کے بلے کو اپنا انتخابی نشان بنایا۔بلا کھیل کود کی علامت ہے۔ پہلے صرف کرکٹ کے موسم میں قوم کے دلوں میں بلے کی محبت جاگا کرتی تھی لیکن جب سے کرکٹ پر سیاست کا رنگ چڑھا ہے تب سے بلا بھی سیاسی ہو گیا ہے۔پہلے بلا چوکے چھکے لگانے کے کام آتا تھا اب یہ ووٹ مانگنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔کرکٹ کے زوال کے بعد اب بلا منہ چھپائے پھرتا ہے۔اب بلے سے بچے گلی محلے میں چوکے چھکے لگا سکتے ہیں لیکن کوئی سیاسی بڑا اسے استعمال نہیں کر سکتا۔آج سے پچیس تیس سال پہلے جب ساری قوم پر کرکٹ کے مہینے تھوپ دیے جاتے تھے اور یہ کہا جاتا تھا کہ پڑھو گے لکھو گے تو ہو گے خراب، کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب، تومیں سوچا کرتا تھا کہ اس قوم کا کیا بنے گا؟یہ قوم دنیا کا مقابلہ کس طرح کرے گی؟ اب کرکٹ نے ہمیں ساری دنیا میں رسوا کرایا ہے تو بلے پر غلاف چڑھا کر توشہ خانے میں چھپا کر رکھ دیا گیا ہے۔کاش ! بلا تھامنے والے ہر ہاتھ میں کتاب ہوتی۔کتاب کے خاموش الفاظ سے بولنا سیکھتے۔

ترازو بھی ایک انتخابی نشان ہے۔اگرچہ یہ انصاف کی علامت ہے لیکن مجھ سمیت کسی نے بھی آج تک ترازو کے پلڑے کبھی برابر نہیں دیکھے۔دکان دار کا ترازو خالی بھی ہو تو اس کا ایک پلڑا ضرور جھکا ہوا ملے گا۔ ترازو وہ چیز ہے جس سے ہر آدمی کا واسطہ پڑتا ہے۔ترازو ہی کے ذریعے سے لوگوں کی جیبیں سر عام کاٹی جاتی ہیں۔اگر ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہو جائیں تو عام آدمی کی زندگی میں سکون آ سکتا ہے۔الیکٹرانک ترازو آنے کے بعد ہمارا روایتی ترازو مزید شیر ہو گیا ہے۔اس نے اوپر نیچے ہونے کے کئی گر سیکھ لیے ہیں۔

کم تول دے گا مجھ کو رعایت کے نام پر

کیا بھائوتائو بندہء چالاک سے کروں

تازہ ترین