لیڈر اور کسی عام ڈاکٹر یا ماسٹر میں عموماً اتنا فرق ہوتا ہے جتنا کراچی اور ہیڈ مرالہ میں۔ کتابی باتیں تو ڈاکٹر کا درجہ مسیحائی کے مقام اور ٹیچر کا درجہ روحانی لیڈر تک لے جاتی ہیں، اور یہ بات درست بھی ہے اگر ڈاکٹر اور استاد اپنے حقیقی مقام پر ہوں تو کسی لیڈر سے کم نہیں، اور اگر شِکم بَندہ ہو تو بگاڑ کا مرکز تو ہو سکتا بناؤ کا گہوارہ نہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خدشات اور خطرات کے ساتھ تو دن رات کھیلتے ہیں مگر ہمارے لیڈرز، ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریٹس ان خدشات و خطرات سے نکل کر مکالمہ کی طرف نہیں آ پاتے۔ ہم ایک دوسرے کے صفحہ یا پِچ پر کھیلنے کے درپے رہتے ہیں بھلے وہ سارا کھیل فاؤل ہی کیوں نہ ہو۔ المیہ سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ مشاہدات و تجربات رکھنے کے باوجود مکالمہ کے نتیجہ خیز دریچے نہیں کھل رہے اور دائروں کا سفر ختم نہیں ہو رہا تو اس کا مطلب سو فیصد یہی نکلتا ہے کہ’’فاؤل پلے‘‘کو دانستہ و نادانستہ ہم نے قومی کھیل کا درجہ دے رکھا ہے۔ جدتوں کے اس دور اور ڈیجیٹل ورلڈ کی موجودگی میں ہمارے رویے میں سہولت کی فراہمی اور پروفیشنلزم کی کمی آسیب کے سائے بنی ہوئی ہے۔ طاقتور حلقے اور بیوروکریسی کھینچ کر کسی نہ کسی طریقے سے سارے بگاڑ سیاست دانوں کے سر تھونپ دیتی ہے۔ کیا بیوروکریٹس خود کامل اور عامل ہیں؟ کیا موجودہ نگراں سیٹ اپ میں پنجاب میں بالخصوص اور پورے ملک میں بالعموم حکومتی باگ ڈور بیوروکریسی کے ہاتھ میں نہیں ہے؟ غیر آئینی و غیر اصولی طویل ترین نگران حکومتوں اور ان کی انجوائے کرنے میں تیز طرار اور پرفارم کرنے میں سست ترین بیوروکریسی نے کون سا قلعہ فتح کر لیا ؟ کتابی اعتبار سے سول سرونٹ اور کارکردگی کے تناظر میں کوڑھ کی کاشت کو فروغ دینے والی افسر شاہی کی سَقہ شاہی یا سِکھا شاہی کو کیسے پارسا یا کامران مان لیا جائے؟ نجانے قدرت کو کیا منظور تھا کہ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے نام سے ڈرانے اور افسر شاہی میں اصلاحات لانے والے تحریک انصاف کے کرتا دھرتا قائدین آخر کار طشتری میں رکھ سیاسی مخالفین کو حکومتیں دینے کے درپے ہیں، اور غیر روایتی و غیر آئینی سال سال بھر کی حکومتیں بھی بیوروکریسی یا "بیوروکریسی نما" کو سویٹ ڈش کی طرح سونپ دیں۔ ایک ہم ہیں کہ جو گلا پھاڑ پھاڑ کہتے رہتے ہیں، کمشنر، چیف سیکرٹری ، ڈی پی آئی سکول و کالجز، پرنسپل سیکرٹری ٹو چیف منسٹر ، پرنسپل سیکرٹری ٹو گورنر کی ضرورت ہی نہیں یہ سب غیر ضروری ڈاک خانے ہیں۔ ہر ضلعی آفیسر اپنے سیکرٹری سے ڈائریکٹ ہو اور ہر سیکرٹری وزیرِ اعلیٰ بغیر کسی واسطے کے براہ راست وزیرِ اعلیٰ سے ربط میں ہو، یہ بیشتر ڈویژنل آفیسر پانی میں مدھانی کے سوا کچھ نہیں۔ اور وزیرِ اعلیٰ اسپیشل سیکریٹری پولیٹکل پرسن ہونا چاہئے۔ گزشتہ تیس برس میں یہی دیکھا کہ جن بیوروکریٹس کی ڈیوٹی بحیثیت سینئر یا جونیئر وزیرِ اعلیٰ ہاؤس لگ گئی وہ سیکریٹریٹ لوٹ بھی آئیں تو ان کے دماغ پر ماجھے ساجھے سا نشہ عمر بھر رہتا ہے، یا کچھ کلاکار افسر کچھ سیاست دانوں پرائیویٹ سیکرٹری زیادہ اور سول سرونٹ کم رہ جاتے ہیں۔ یہاں سے الجھنوں کے سفر شروع، ضرورت سے زیادہ اعتماد کا زہریلا پن شروع ہوتا جو خاردار پگڈنڈیوں سے گزرتا ہوا آمریت کے آنگن تک جا پہنچتا ہے!
اگر آصف علی زرداری سا لیڈر انتہائی نازک حالات میں 18 ویں ترمیم سا مشکل کام مفاہمت کی بنیاد پر سر انجام دے سکتا ہے، اور دیگر قیادت دل و جان سے اس کا ساتھ دیتی ہے تو پھر بیوروکریسی میں اصلاحات لانا کتنا مشکل کام ہے؟ اگر زرداری صاحب کو میاں رضا ربانی، راجہ پرویز اشرف، فاروق نائیک، فرحت اللہ بابر ، خورشید شاہ اور سید نوید قمر سی ٹیم مہیا ہے تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا؟ ایسی ٹیم میاں برادران اور بانی تحریکِ انصاف کے پاس بھی تو ہے سو ان ٹیموں کو اکٹھا بٹھا کر متعدد نتیجہ خیز اصلاحات تک بھی تو پہنچا جا سکتا ہے۔
اگر عدم اعتماد تحریک سے قبل یا بعد میں سیاسی قیادت بشمول بانی تحریک انصاف سر جوڑ کر بیٹھ جاتے تو اداروں کے ہاتھوں میں سیاست دانوں کے بال ہوتے نہ نام نہاد ٹیکنوکریسی اور بیوروکریسی کے۔ ہم تو دست بستہ یہ بھی کہتے اور مانتے ہیں کہ ڈی ایم جی گروپ سارے کا سارا وزارتوں اور شرارتوں میں ڈال لیا کریں، انکی صلاحیتوں سے ضلعی لیول پر بھرپور استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ سلمان فاروقی سےلوگ جہاں ہر حکمران کی محبتیں اور صعوبتیں بیک وقت برداشت کرتے ہیں وہاں موٹر وے ون اینڈ ٹو انہی کا برین چائلڈ ہے، وفاقی محتسب اعلیٰ بنیں تو ججوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں کہ ایک کیس بھی التوا میں نہ رہے، ڈیجیٹل فون اور گونگے بہرے بچوں کی اسکول چین بھی دیتے ہیں۔ کاش آصف علی زرداری صدر ہوتے ہوئے انہیں ایوان صدر میں ایک چھوٹا سا دفتر دے کر پراجیکٹ بنانے والی مشین کا کام سلمان فاروقی سے لے لیتے!
خیر ، میں ایک کھوج میں تھا اور اپنی تسلی کیلئے کہ واقعی نگراں وفاقی وزیر صحت ندیم جان گلوبل ہیلتھ پروٹیکشن میں پاکستان کو عالمی سطح پر لیڈ کرنے کی پوزیشن میں لے آئے ہیں؟ دیکھنے تو یہی گئے تھے مگر ان سے قبل نگراں صوبائی وزیر (پرائمری و سیکنڈری ہیلتھ، پنجاب) ڈاکٹر جمال ناصر کی تقریر سے بڑے بدمزہ ہوئے! بہرحال اسی بزم میں ڈاکٹر جاوید اکرم ( نگراں صوبائی وزیر ہیلتھ ایجوکیشن) کی گفتگو سنجیدہ و فہمیدہ تھی تاہم ندیم جان کو سننے اور تفصیلی گفتگو کے بعد احساس ہوا کہ ڈاکٹر ندیم جان نے بطور ریسرچر، ریفارمر اور منسٹر جہاں گلوبل ہیلتھ پروٹیکشن کے تحت کمیونٹی میڈیسن، ویکسینیشن ، پبلک ہیلتھ اور موسمی چیلنجز میں پاکستان کو لیڈنگ رول دلوایا وہاں امیر ملکوں سے ضرورت مند ملکوں کو قابلِ ذکر فائدہ بھی پہنچایا۔ پولیو، ہیپاٹائٹس اور ذیابطیس کے علاج میں سہولت کاری اور سرمایہ کاری مینجمنٹ کے ماضی کے ریکارڈ بھی توڑ ڈالے، لیڈر لیڈر سے لگے مگر اس کی تفصیلات پھر سہی، شاید وہ ڈریپ، فارمیسی کونسل اور نرسنگ کونسل کی انسدادِ بدعنوانی کی کوئی سیدھی اینٹ رکھ جائیں، بدقسمتی سےہیلتھ سیکرٹری ان کے پیج پر نہیں ہوگا کہ بیوروکریٹ اور لیڈر میں چیچو کی ملیاں اور اسلام آباد سا فرق ہوتا ہے!