پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ مخلوط حکومت بنی تو پی ٹی آئی یا ن لیگ میں سے کسی کا ساتھ نہیں دوں گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے کردار سے پہلے سے مایوس تھا، نواز شریف کے کردار سے سخت مایوس ہوں۔ اس لیے آج کل ہمارے فاصلے کافی واضح ہیں، اگر نواز شریف کو پرانی سیاست کرنی ہے تو میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ ہمارا خیال تھا لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی لیکن یہ ہمیشہ مسئلہ رہا ہے، میری نظر میں بانی پی ٹی آئی، نواز شریف پرانی سیاست کرنا چاہتے ہیں، وہی سیاست کرنا چاہتے ہیں جو ہم نے بار بار ناکام ہوتے دیکھی ہے۔
پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ ہم ایک نئی سوچ اور جذبے کے ساتھ ملکی نظام کو بہتری کی جانب لے جانا چاہتے ہیں، یہ لوگ جمہوریت اور ریاست کو اپنی ذاتی انا کی وجہ سے نقصان پہنچاتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ آزاد امیدواروں کی اکثریت پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر نہیں ہیں، پنجاب میں ایسے لوگ ہیں جو ن لیگ کے مخالف ہیں اور آزاد ہیں، بہت سے آزاد امیدوار پہلے پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کو آزاد امیدواروں کا ساتھ مل سکتا ہے، پیپلز پارٹی چاروں صوبوں میں مہم چلا رہی ہے، جلسے کیے ہیں، ہم انتخابات اور جمہوریت کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، ابھی تو شروعات ہے آگے چل کر بہت کام کریں گے۔
پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ جو ہو رہا ہے، وہ مکافاتِ عمل ہے، پاکستان میں رہنے والے کو پتا ہونا چاہیے کہ اداروں پر حملے ریاست برداشت نہیں کرے گی۔
ایک سوال پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خاتمے کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی ہوگی، پہلا قدم سیاست دانوں کو اٹھانا ہوگا، سیاست دان ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو پھر دوسروں سے کیا امید رکھیں کہ وہ ہماری عزت کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں اسٹینڈرڈ ہائی نہیں ہیں، 2018اور2013 میں بہت سے سیاستدان الیکشن نہیں لڑ سکے تھے، 2018اور2013 میں جو سیاستدان سب سے زیادہ خوش تھا وہ بانی پی ٹی آئی تھا، اگر آج وہ آؤٹ ہیں تو انھیں اپنے سیاسی فیصلوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔
بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا، انھوں نے اداروں پر غیرجمہوری انداز میں حملے کیے، انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اس قسم کے تشدد کو پاکستان کی ریاست برداشت نہیں کرے گی۔