• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں ، اسے صحیح معنوں میں ڈس انفارمیشن کا دور کہا جا سکتاہے ۔ آپ کسی بھی وڈیو کو لے کر، اس میں اپنی مرضی کی ڈبنگ کر کے کچھ بھی پھیلا سکتے ہیں ۔ سوائے اس شعبے کے ٹیکنیکل لوگوں کے ، کوئی اندازہ نہیں کر سکے گا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جھوٹ کو پھیلانا بہت آسان ہے کیونکہ آپ ایسا جھوٹ بولیں گے ، جو لوگوں کوپسند آئے گا۔ سچ تو اکثر بڑا کڑوا ہوتاہے۔

آج کل لوگ وڈیو میں جھوٹ بولیں یا نہ بولیں ، تھمب نیل ضرورجھوٹ سے بھرا ہوتاہے ۔سرخی کلک کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔اسے کلک بیٹ کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں یہ لکھتا ہوں :’’خون کا دریا بہا دیا جائے گا‘‘ ۔ ہر پڑھنے والا بے اختیار اس پر کلک کرے گا کہ پتہ نہیں کہاں خون کا دریا بہنے والا ہے ۔نیچے ہو سکتاہے کہ بڑی عید پر جانوروں کا خون بہنے کی بات کی گئی ہو ۔

پاکستان میں جس ہستی نے کلک بیٹ کا کاروبار قائم کیا ، اس نے بے پناہ جھوٹی خبریں اور وڈیوز بنائیں ۔ ان میں سے ایک وڈیو یہ تھی کہ جاپان میں ایک 96سالہ جوگی ہے ، جو دیکھنے میں 40سال کا لگتا ہے۔ گھنٹوں وہ دوڑتا ہے اور دوڑتے دوڑتے پہاڑ پہ چڑھ جاتاہے ۔ اس نے ایک ہزار ڈالر فیس لے کر مجھے یہ راز کی بات بتائی کہ جو شخص روزانہ چالیس گلاس پانی پیے، وہ آسانی سے دبلا پتلا ہو جائے گا۔اس کی اس وڈیو سے ڈاکٹر حضرات بہت محظوظ ہوئے ۔ بے شمار لوگ پانی پی پی کرقے کرتے ہوئے پائے گئے ۔ پتلا کوئی نہ ہوا۔

ڈس انفارمیشن کی اس دنیا میں سچ کیسے تلاش کیا جائے؟ایک شخص آپ کو بتاتا ہے کہ امریکی کبھی بھی چاند پر نہیں اترے ۔ سچ تک کیسے پہنچیں ؟ کسی بھی شعبے پر اس کے ماہر کی رائے لیں، اناڑی کی نہیں ۔ جو واقعات اور شواہد ریکارڈ کا حصہ ہیں، انہیں اپنے ذہن میں رکھیں۔ آپ کا ذہن سچی تصویر بنا لے گا۔ دنیا کے ہر شعبے میں ماہرین موجود ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔ ان ماہرین کی ایک مجموعی رائے ہوتی ہے۔ مثلاً صحافیوں کی ایک برادری ہے۔ اس میں ہر شخص کو دوسرے کی اوقات اچھی طرح معلوم ہے۔ کون کتنی بڑی خبر لانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ کون حکومتی ٹائوٹ ہے اور کون آزاد۔

فرض کریں دو سو سال پہلے ایک جنرل آ کر کہتا کہ وہ روس کا ایک شہر فتح کر کے لوٹا ہے تو دوسرے جنرل آنکھیں بند کر کے مان جاتے ؟ وہ اس سے سوال جواب کرتے۔ وہ شہر میں کس طرف سے داخل ہوا؟ اس کے پاس کتنے سپاہی تھے اور دشمن کی نفری کتنی تھی؟ وہ ایک ایک سوال پوچھتے جاتے اور معاملے کی تہہ تک اتر جاتے۔

ایک برادری سائنسدانوں کی ہے۔یہاں صرف ٹھوس ثبوت مانا جاتا ہے ۔ آپ اگر کہیں گے کہ آپ نے ایک نیا ایندھن ایجاد کر لیا ہے تو کوئی بھی آپ کی بات نہیں مانے گا۔ آپ معاملات کی تفصیل تحریری طور پر دیں گے ۔ اس کے بعد سائنسی دنیا کے نامور ذہن اپنی مہر اس پر ثبت کریں گے۔ پھر آپ کو پوری دنیا میں عزت ملے گی ورنہ وہی ہوگا جو انجینئرآغا وقار کے ساتھ کیا گیاتھا۔

یہی معاملہ چاند پرانسانی قدم کا ہے۔اگر تو چاند پہ اترنا اور واپس آنا ناممکن ہوتا تو بہت سے امریکی اور سوویت سائنسدان یہ بات ٹی وی اور اخبارات کو بتا دیتے ۔ یہ جنگ اس وقت ختم ہوئی، 1969ء میں جب امریکی چاند پہ اتر گئے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں، امریکی وہاں نہیں اترے تھے بلکہ وہ ایک جھوٹی وڈیو تھی۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایک سپر پاور اگر دوسری سپر پاور کو پاگل بنانے کی کوشش کرے گی تو کیا وڈیو میں وہ اس طرح کے بچگانہ نقائص چھوڑے گی، جس طرح کے آج ہم نیٹ پر سنتے ہیں۔

افواہیں پھیلانے والے دقیق سائنسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ مجھے ایک بار ایک شخص نے کہا کہ امریکی Vinyle radiation layerسے کیسے گزرے ؟ میں نے ہرجگہ اس اصطلاح کو ڈھونڈا۔ جب کہیں نہ مل سکی تو اس دوست سے پوچھا کہ آپ نےVinyle radiation layerکہاں سے پڑھی تھی۔ اس نے کہا، نیٹ پر ہی کہیں پڑھا تھا۔ سچ یہ تھا کہ اس نام کی کوئی اصطلاح سرے سے پائی ہی نہیں جاتی لیکن سننے والا سن کر ہی ایک دفعہ مرعوب ہو جاتا ہے۔

پھر یہ کہ اگر ایک سپر پاور اتنے بڑے نقائص چھوڑ رہی تھی تو حریف عالمی طاقت کے لیے تو یہ ایک سنہری موقع تھا۔ عالمی سطح پر امریکہ کو جھوٹا ثابت کیا جاتا۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ سوویت یونین نے باضابطہ طور پر یہ موقف کبھی اختیار نہیں کیا کہ امریکی چاند پر نہیں اترے۔ بھلا کیوں؟ اس لیے کہ وہ تو جانتے تھے کہ امریکی سچ بول رہے ہیں ۔

سوویت یونین کے پاس ایک ہی راستہ تھا۔ دنیا بھر میں امریکیوں سے نفرت کے جذبات پائے جاتے تھے۔ بہت سے لوگوں کو تکنیکی باریکیوں کا علم نہیں تھا۔ سوویت یونین والوں نے عام ذہنوں کو متاثر کرنے والے دلائل تیار کیے۔ اتنے ڈیسی بل شور میں آواز کیسے سنائی دی؟ سائے کا زاویہ ایسا کیوں تھا ۔ پھر یہ افواہیں انٹر نیٹ پر پھیلا دی گئیں۔

افواہیں پھیلانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ Simpsonکارٹون میں 1980ء کی دہائی میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ ایک روز ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے جہاز ٹکرائیں گے۔ جس تاریخ ساز ذہن نے افواہ ایجاد کی، اسے اس کے سوا کچھ بھی نہیں کرنا تھا کہ پرانے کارٹون میں نئی آواز بھر دی۔ بہت ساری ویب سائٹیں ایسی ہیں، جن میں انہی افواہوں کی مدد سے زیادہ سے زیادہ ٹریفک پیدا کر کے اللہ کی مخلوق اپنی اپنی روزی روٹی کمارہی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اورواٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین