سیاست سے جُڑے کرداروں کے سنگ ریاست، سیاست اور حکومت سے تعلق رکھنے والے سب امور میں جمہوری آبیاری ہی شہری کو سکھ کا سانس دیتی ہے۔ حکومت کی حقیقت کو پل پل پرکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا حکومت کا ریاست کی نگہبانی کرنا۔
اگلے کالم تک صریر خامہ میں 8فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد حزبِ اقتدار کے تانے بانے بُننے کی بازگشت اور حزب اختلاف کی صف بندی کا چرچا عروج پر ہوگا۔ انتخابی ایکشن نیوٹن کے تیسرے قانون کا منظرنامہ بنا ہوگا، لیکن کچھ بھی نیا نہیں ہوگا ، نہ اساس میں تغیر نہ احساس میں گرمی ہوگی البتہ’’گرم جوشی‘‘ یقیناً ہو گی۔
انتخابات سے ایک ہفتہ قبل بانی تحریک انصاف توشہ خانہ سے سستے داموں اشیاء چُرا کر فروخت کرنے اور سائفر راز کے افشا کی پاداش میں بالترتیب 14 سالہ اور 10 سالہ قید کی سزا سن چکے ، جرمانے الگ ہیں، اور ابھی کچھ کیس باقی ہیں۔ الیکشن کی دیوار پر فیئر پلینگ فیلڈ کی اداسی بال کھولے سو رہی ہے!
ایک ہی سمجھ آ رہی ہے جس کے راستے میں کوئی تذبذب ہے نہ کسی شش و پنج کی گنجائش کہ عدالتی کم مقتدرہ کی واضح سزا صرف ذوالفقار بھٹوہی کو ملی، یہ نوازی و عمرانی سزائیں فقط ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کا ایک عمل ہیں۔ جیسے سزائیں دے کر سزاؤں سے بچانے کا کاروبار ہو کوئی ! بہرحال ایسا سب کچھ جمہوریت کے راستے کی رکاوٹ ہے یہ کوئی فروغ نہیں لگتا۔
جب تحریکِ عدم اعتماد کے سائے پارلیمنٹ پر منڈلا رہے تھے، اور اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر فاؤل پلے کر رہے تھے ٹھیک اس موقع پر سائفر کے تاثر اور سیکرٹ ایکٹ کی دھجیاں اڑا کر اور مظلوم بن کر کارکنان کو اپنی جانب مائل کیا جارہا تھا جو دراصل ایک کروڑ گھر اور پچاس لاکھ نوکریوں کے علاوہ بیوروکریسی میں اصلاحات نہ ہونے کے سبب قریب قریب متنفر ہو چکے تھے تاہم ان کو قریب لانے کیلئے ان سے اور قوم کے جذبات سے کھیلا گیا۔ یہ تھا تو ایک منفی حربہ تاہم تیر سیدھا عوامی جذبات کے ٹارگٹ پر لگا یوں وقتی کامیابی ٹھہری، مگر معاملہ اس قدر نشیلا سا تھا کہ طویل المدتی نقصان نظر انداز ہوگیا۔ عدم اعتماد کا نتیجہ بھگتنے کے بعد ، دو صوبائی حکومتیں اپنےہاتھوں توڑ ڈالیں جو نگران حکومتوں کی لاٹری جا نکلی اور کیسوں کا الگ سامنا ہوا یوں بات حالیہ دو سزاؤں تک جا پہنچی۔ سنگین مقدمات ابھی کچھ اور بھی ہیں۔ کیس کتنے سنگین تھے یا کس قدر سطحی ، یہ ایک الگ بحث ہے تاہم احتجاجی مارچ جب تک لاہور سے وزیر آباد پہنچا تھا تو قیادت کی سمجھ میں آجانا چاہئے تھا کہ سماں کیا کہہ رہا ہے، یہاں مشیروں کو بھی نظرثانی کرنی چاہئے تھی کہ زمان پارک سا ردعمل کتنی عمر رکھ سکتا ہے۔ اس کمزور اور بےاثر لانگ مارچ نے کہانی کھول کر رکھ دی تھی مگر مزید عوامی ہمدردیوں کو سمیٹنے کے لالچ میں ،قیادت کی عدم فراست میں فیصلہ کن گھڑی اور گاڑی نکل گئی ،گویا سامنے نظر آنے والی بند گلی سے اس وقت بھی راستہ نکلنے کی امید موجود تھی! اقوام کی زندگی راؤنڈ دی کلاک چلتی ہے جس میں وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن بانی تحریکِ انصاف ایک طرف 22 سال کی جدوجہد کا دعویٰ کرتے ہیں تو دوسری طرف حاصل کردہ اقتدار ان سے سرک جاتا ہے۔
اقتدار کے چند ماہ بعد ہی حکومت کی حقیقت کی کھوج داخلی طورپر خاص و عام کی سطح اور بین الاقوامی طور سے خارجہ کے ماہرین کی سطح پر شروع ہو جاتی ہے جس میں بانی تحریکِ انصاف سعودیہ سے چائنہ اور امریکہ سے ملائشیا تک بری طرح ناکام ہوئے۔ پھر بھی سنبھلا جا سکتا تھا، اور سنبھلنے کا یہ وہی فارمولا تھا جو آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو 2014 میں بتلایا کہ آئیں سب فیصلے مل بیٹھ کر پارلیمنٹ میں کرتےہیں تاکہ پارلیمان کی عزتیں عدالتوں میں نہ اچھالی جا سکیں۔ تحریکِ انصاف کے دھرنا کے عروج پر بھی آصف علی زرداری کا یہی موقف تھا۔ اپریل 2022 کی تحریک عدم اعتماد پر جہاں خان نے اپنا غصہ تھوک کر تدبر کو قریب نہیں پھٹکنے دیا وہاں اس نے ہر سو ڈائیلاگ سے کنی کترائی، جتنا بڑا لیڈر ہو اس کا سینہ ڈائیلاگ کیلئے اتنا ہی کشادہ ہوتا ہے سوائے آمروں کے۔ بانی تحریکِ انصاف کو یقیناً مکافاتِ عمل کا سامنا ہے، انہوں نے ہم عصر سیاست دانوں کی حد درجہ ملک میں اور بیرونِ ملک توہین کی، مسجد نبوی تک میں تضحیک کی گئی، فرض کریں مسجد نبوی کے معاملہ کو خان سے لنک نہ بھی سمجھیں تو خان نے کھل کر مذمت تک بھی نہ کی تھی، شریف برادران کے علاوہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور تک سے ڈِیو پراسس کو دور رکھا، رانا ثناءاللہ اور احسن اقبال تک کو فیئر ٹرائل سے ترسایا، وہ دوست جو آج چھوڑ چکے ان کی تربیت تک نہ کی پھر فواد چوہدری و مراد سعید نے کس موقع پر غیر ذمہ دارانہ رویہ نہیں اپنایا ؟
محسوس یہ ہوتا ہےاسد عمر، چوہدری غلام سرور ، اعظم سواتی، عمر ایوب و دیگر ٹیم ممبرز کی ناکامیوں کے بعد بانی تحریکِ انصاف کے پاس کوئی ایجنڈا بچا نہ آزمانے کیلئے بازو ہی ، پس بناؤ کے بجائے بگاڑ کی سیاست کا فیصلہ کرلیا کہ مقبول مقبول کھیلا جائے ریاست قبول کرے نہ کرے۔ یہ وہ موقع تھا جہاں آصف زرداری، اور چوہدری شجاعت جیسے لوگوں سے استفادہ ضروری تھا جو اقتدار اور ریاست کیلئےبیک وقت سودمند ہوتا۔ لیکن اس دور کے چیف جسٹس پر حد درجہ تکیہ ، بابراعوان اور علی ظفر سے مشیران پر اندھا یقین لے ڈوبا۔ اس سے صرف اقتدار ہی پیوند خاک نہیں ہوا تھا ملکی معیشت کو بھی دھچکا لگا، وہ معاشی فائدہ جو کورونا وبا کے سبب جانے انجانے میں ہاتھ لگا ، وہ بھی گیا۔
میثاقِ جمہوریت کے دیرپا اثرات نہ ہوتے تو شاید بگاڑ کی حد زیادہ ہوتی۔ قصہ مختصر ، خان مقبولیت کی دیوی سے منہ موڑ کر مکالمہ کی حقیقت اور جمہوریت کے حسن کی خاطر زاویۂ زرداری کی مفاہمت اور مصالحت سے استفادہ کرلیتے تو ہنوز تخت و تاج کے حامل یا حصولِ اقتدار کی گیم میں ہوتے !