• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5اگست 2019ء کو ہندوستان کی حکومت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370اور 35-Aکو ختم کرتے ہوئے جموں وکشمیر کی ذیلی متنازع ریاست کی حیثیت ختم کرکے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کی۔ یہ صورتحال سات دہائیوں پرانی تکلیفوںکی یاد تازہ کرتی ہے جو 1947ء سے پہلے بھی ہندوستانی چیرہ دستی کی غماز ہے۔ حقِ خود ارادیت کیلئے جدوجہد کرنیوالے کشمیریوں کیلئے یہ ایک تاریک لمحہ تھا۔ دنیا فقط محوِ نظارہ ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی قرادادیں محض کاغذ کا پرزہ بن کر رہ گئی ہیں جو اقوام کے اقتصادی مفادات کی نذر ہو چکی ہیں۔ حق ایک بار پھر قوت کے سامنے سرنگوں ہے، پاکستان اپنے اندرونی مسائل کی وجہ سے اس مخمصے میں مبتلا ہے کہ اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کی جدوجہد میں انکا ساتھ کیسے دے۔ یہ مبالغہ ہوگا اگر اس مسئلے کا تجزیہ 1947ء سے کیا جائے حقیقت میں یہ کہانی اس سے بہت پہلے شروع ہوتی ہے۔ 1598ء میں مغلوں نے 86ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے کشمیر کو فتح کیا۔ مغلوں نے کشمیر یوں کیلئے کچھ نہیں کیا سوائے اسکے کہ وہ یہاں کے باغات کو خوبصورت بنائیں تاکہ انکی موسمِ گرما کی تعطیلات یہاں اچھے انداز میں گزر سکیں۔ مغلوں کے بعد یہ علاقہ افغانوں کے ہتھے چڑھ گیا اور پھر 1819ء میں اس پر سکھ قابض ہو گئے۔ سکھ انگریزوں سے شکست کھاتے چلے گئے یوں یہ علاقہ ایک ڈوگرہ خاندان کو بیچ دیا گیا کیونکہ اس خاندان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد کی تھی۔ گلاب سنگھ نے کشمیر کی تمام زمینوں، وسائل اور لوگوں سمیت برطانوی حکومت سے صرف 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض خرید لیا۔ برطانوی راج اور ڈوگرا راج کا یہ انتظام 1947ء کی آزادی تک چلتا رہا۔ ہری سنگھ جو کشمیر کا راجہ تھا وہ اسکی ایک علیحدہ حیثیت چاہتا تھا۔ جبکہ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان سے الحاق چاہتی تھی۔ یہ کشمیری قوم کے مذہبی ثقافتی اور لسانی رشتے تھے جو اسے پاکستان سے جوڑے ہوئے تھے۔ ہری سنگھ نے ہندوستان یا پاکستان میں ضم ہونے کے فیصلے کو التوا میں ڈال دیا۔ جب خبر آئی کہ کشمیر کا مستقبل ہندوستان سے وابستہ کیا جا رہا ہے اور ہندوستانی فوج وہاں داخل ہو گئی ہے تو پاکستان نے بھی اپنی افواج جن کی مدد شمالی علاقہ جات کے جنگجو کر رہے تھے، کشمیر میں داخل کر دی۔ ہری سنگھ نے اکتوبر 1947ء میں ہندوستان سے کشمیر کے الحاق کا معاہدہ کر لیا، جنگ چھڑگئی پھر کچھ عرصہ بعد جنگ بندی ہوئی۔ جہاں فوجیں رُکیں اسے آج ہم لائن آف کنٹرول کہتے ہیں۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پاکستان میں آگئے جبکہ جموں کشمیر اور لداخ ہندوستان کے پاس چلے گئے۔ ہندوستانی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو نے وقتی طور پر اقوامِ متحدہ کی قراداد کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا جسکی رو سے کشمیر میں رائے شماری کی جائیگی لیکن ہندوستان نے آج تک اس معاہدے کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔

پاکستان نے پہلے ہی دن سے یہ عزم کر رکھا ہے کہ کیونکہ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لہٰذا انہیں یہ حق ملنا چاہئے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ حقِ خود مختاری اور خود ارادیت کشمیر یوں کا حق ہے پاکستان کی ہندوستان کے ساتھ 1948ء، 1965ء، 1971ء اور 1999ءمیں جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ ہندوستان کی افواج کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرتی رہی ہیں ۔قتلِ عام، خواتین کی عصمت دری اور ظلم و جبر معمول بن چکا ہے ۔یہ کارنامہ ہندوستانی فوج کا ہے جو وہاں قابض ہے اور بین الاقوامی قوتیں فقط خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

جنوری 2019ءمیں بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میںکشمیر کو ہندوستان میں ضم کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ ہندوستان کا آرٹیکل 370کشمیر کو ایک خاص ریاست کا درجہ دیتا تھا اس آرٹیکل کے تحت کشمیریوں کو ایک طرح کی خود مختاری حاصل تھی جس کے تحت انہیں اپنا آئین اپنے قوانین ، اپنا جھنڈا اور اپنی خارجہ پالیسی بنانے کی اجازت تھی ، ہندوستان نے کشمیر کی یہ حیثیت ختم کر دی اوردو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس تقسیم کے بعد ہندوستان کے عوام کو اجازت دی گئی کہ وہ وہاں جا کر بس جائیں ،جائیدادیں خریدیں اور مسلمان اکثریت والے علاقوں کو ہندو اکثریت میں تبدیل کر دیں۔ کشمیریوں کے معاشرتی اور سیاسی حقوق سلب کر لیے گئے ۔


پاکستان طویل عرصے سے اقوامِ متحدہ، اسلامک کونسل، یورپین یونین اور دیگر عالمی فورمز پر کشمیریوں کیلئے آواز بلند کرتا آ رہا ہے ۔مسلمان جو ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہیں، کو اپنی اقتصادی مصلحتیں کشمیریوں کی کھل کر مدد کرنے سے روک رہی ہیں۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ پاکستانی عوام اور فوج نے آ خری سپاہی اور خون کے آخری قطرے تک کشمیریوں کے حقوق کیلئے لڑنے کی قسم کھائی ہے۔یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر جنگ ہوئی تو پاکستان، جو رقبہ میں ہندوستان سے بہت کم ہے ،کے پاس اعلیٰ تربیت یافتہ فوج ہے۔ اس فوج نے دہشت گردی کے خلاف ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیںجو امریکی فوج بھی افغانستان میں حاصل نہیں کر پائی ۔جہاں تک ایٹمی توانائی کا تعلق ہے پاکستان کو برتر ی حاصل ہے اگر ایٹمی جنگ کی نوبت آتی ہے تو اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہو گا۔ بی جے پی اپنے غرور اور خون آشام رویوں کے نتیجے میں یہ بھول چکی ہے کہ اسکے ظلم و ستم نے کشمیریوں میں آزادی کی ایک نئی جوت جگا دی ہے۔ ہندوستان قابض فوج کے ذریعے تمام مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔اس سے نا صرف کشمیر میں نفرت پھیلی ہے بلکہ نکسل باڑی اور خالصتان کی جدوجہد بھی تیز ہو ئی ہے ۔ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ لداخ کا بیشتر علاقہ چین کے قبضے میں ہے جو 1962ءمیں ہندوستان نے چین کے حوالے کر دیا تھا ۔ہندوستان کی کشمیر کو ضم کرنے کی خواہش چین کے زیرِ تسلط لداخ کے علاقے پر بھی لاگو ہو گی۔ سی پیک اور اوبور جیسے پروجیکٹ اس صورت میںبراہِ راست متاثر ہونگے، اس طرح لداخ اور گلگت بلتستان میں چین اور پاکستان کے مفادات ایک ہو جائینگے۔ پاکستان اور کشمیر کے عوام نے ہندوستانی سامراج سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ قومیں بنتی ہی اُس وقت ہیں جب وہ مشکل حالات کی کٹھالی سے گزرتی ہیں۔ کسی فلسفی نے کہا تھا’’ جنگ ایک عجیب چیز ہوتی ہے اگر آپ اس کے لئے تیار نہیں ہوتے تو اس سے بچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے‘‘۔آزادی کی یہ جنگ کشمیریوں پر غیر علانیہ طور پر مسلط کی گئی ہے۔ پاکستان اس جنگ میں براہِ راست فریق ہے کشمیر میں بھڑکائی جانے والی تشدد اور ظلم کی آگ سے ہندوستان پاکستان کو بھی جھلسانا چاہتا ہے اسی لیے کشمیریوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہونا ہمارا اخلاقی اور قومی فریضہ ہے کیوںکہ اگر کشمیر یوں کو ان کا حق نہ ملا تو پاکستان بھی ہندوستان کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتا ۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئر مین ہیں)

تازہ ترین