رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے بھارت کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحافیوں کے ویزے اور اجازت نامے جاری کرنے کے لیے اپنے طریقہ کار کا ناجائز فائدہ اٹھانا بند کرے تاکہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو بھارت میں آزادی سے کام کرنے کا موقع مل سکے۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
آر ایس ایف کے مطابق بھارتی حکومت کا یہ طرز عمل ایک فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک کے کیس سے سامنے آیا ہے، جنہیں جنوری میں مبینہ طور پر "بد نیتی پر مبنی اور تنقیدی" مضامین لکھنے کی وجہ سے ملک بدر کرنے کی دھمکی دی گئی تھی اور جنہیں گزشتہ 17 ماہ سے بھارت میں کام کرنے کے حق سے محروم رکھا گیا تھا۔
اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (او سی آئی) کارڈ کے حامل کے طور پر کام کرنے کا اس کا حق ہندوستانی نژاد غیر ملکیوں یا ہندوستانی شہریوں کے شریک حیات کے لیے رہائشی اجازت نامے کا اجراء کو ستمبر 2022 میں بغیر کسی بنیاد کے اچانک ختم کر دیا گیا، حالانکہ وہ 20 سالوں سے فرانسیسی زبان کے میڈیا جیسے کہ لا کروکس، لی سوئر اور لی پوائنٹ کے لیے بھارت میں کام کر رہی تھیں۔
انکے علاوہ او سی آئی کارڈ رکھنے والے چار صحافیوں کو اب تک کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ نتیجے کے طور پر ان میں سے دو نے مکمل طور پر ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
"وینیسا ڈوگناک کے کیس نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح ویزا یا ورک پرمٹ جاری کرنے کے عمل کا استحصال غیر ملکی صحافیوں پر دباؤ ڈالنے یا انہیں مکمل طور پر کام کرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
چونکہ بھارت میں آزادی صحافت کا احترام مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے اور صرف چند ہی حقیقی آزاد میڈیا باقی رہ گئے ہیں، یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے جابرانہ ہتھکنڈوں کا ایک اور ذریعہ ہے۔ آر ایس ایف نے کہا ہم پریس کی آزادی میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے انتظامی طریقہ کار کے اس ناقابل قبول استحصال کی مذمت کرتے ہیں اور بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دے۔
ایک میڈیا ادارے کے مطابق آتش تاثیر نامی ایک صحافی جو برطانیہ میں پیدا ہوئے لیکن بھارت میں پلے بڑھے، 2019 میں ٹائم میگزین کے لیے نریندر مودی کے بارے میں کور اسٹوری لکھنے کے بعد ان کا او سی آئی کا درجہ چھین لیا گیا۔ نتیجے کے طور پر وہ اب اس ملک میں رہنے کے قابل نہیں رہے جہاں ان کا خاندان رہتا ہے۔
او سی آئی کارڈ ہولڈرز غیر ملکی صحافیوں پر 2022 میں رکاوٹوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا، جب حکام نے انہیں بطور صحافی کام کرنے کے لیے خصوصی اجازت نامے کے لیے درخواست طلب کرنا شروع کر دی، جسے غیر ملکیوں کے علاقائی رجسٹریشن آفس (FRRO) میں ہر سال تجدید کرانا پڑتا ہے۔ یہ اجازت نامہ بغیر کسی جواز کے مکمل طور پر من مانی طریقے سے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
بھارتی نژاد امریکی صحافی انگد سنگھ جو وائس نیوز کے لیے دستاویزی فلمیں بناتے ہیں، کو اگست 2022 میں دہلی پہنچنے پر او سی آئی کارڈ ہونے کے باوجود واپس امریکہ بھیج دیا گیا۔ بھارت کے بارے میں سنگھ کی 2020 کی ایک دستاویزی فلم کو بھارتی حکام نے "منفی" قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ "ملک کو بدنام کرنے کے لیے ملک دشمن پروپیگنڈے میں ملوث تھے۔"
او سی آئی کا درجہ نہ رکھنے والے غیر ملکی رپورٹرز کو صحافی کے ویزا کے لیے درخواست دینا ضروری ہے۔ اصولی طور پر یہ ویزے ایک سال کے لیے جاری کیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ اکثر صوابدیدی طریقے سے بہت کم مدت کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔ دو، تین یا چھ ماہ کے لیے، صحافیوں کو ایک ایسی غیر یقینی حالت میں رکھا جاتا ہے جس کی مسلسل تجدید کرنا پڑتی ہے اور ان کے منسوخ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
جبکہ اس اجازت کے حامل افراد کی اکثر چند محدود علاقوں تک رسائی ہوتی ہے غیر ملکی صحافیوں کو بھی اب تقریباً دس ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ان میں خاص طور پر جموں اور کشمیر، جس کا پورا علاقہ 2019 سے ناقابل رسائی ہے۔
ان علاقوں تک رسائی خصوصی اجازت ناموں سے مشروط ہے، اور اجازت کے لیے درخواستیں شاید ہی کبھی منظور کی جائیں۔ درخواست کے طریقہ کار میں پابندیوں اور سرخ فیتے کی صرف ایک اور تہہ ہے جس کی وجہ سے آج کل غیر ملکی صحافیوں کے لیے بھارت میں صحافتی ذمہ داریاں پوری کرنا بہت مشکل ہے۔ آر ایس یف کے مطابق 2023 میں بھارت 180 ممالک میں 161 ویں نمبر پر تھا۔