مسلم لیگ (ن) نے اپنی الیکشن کمپین بہت دیر سے شروع کی مگر اب یہ اپنی ’’لیٹ‘‘ نکالنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ٹی وی، سوشل میڈیا، رابطے اور ریلیاں اپنی بہار دکھارہی ہیں، ان دنوں گھر گھر میاں نواز شریف کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ آپ فون اٹھاتے ہیں تو آواز آتی ہے ’’میں میاں نواز شریف بول رہا ہوں‘‘ اور پھر پاکستان کا سب سے سینئر سیاستدان آپ سے ووٹ کی بات کرتا ہے،میں نواز شریف کے ان تمام مشکل ادوار میں ان کا ہم قدم رہا ہوں، ذرا سی ’’ہاں‘‘ پر یہ سب مشکلیں آناً فاناً ختم ہوجانا تھیں مگر انہوں نے ہر بار اقتدار پراقدار کو ترجیح دی، جیلیں کاٹیں، انہیں جہاز میں ہی ہتھکڑیاں پہنا کر لایا گیا، انہوں نے اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال جلا وطنی میں بسر کئے اور وہاں بھی انہیں ذہنی اذیت دینے کے تمام حربے استعمال کئے گئے۔ ان کے سامنے ان کی بیٹی مریم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا لیکن باپ اور بیٹی اس امتحان میں بھی سرخرو رہے، ثاقب نثار اور کھوسہ جیسے ججوں نے جعلی مقدمات میں انہیں سزائیں سنائیں، ایسے مواقع پر مجھے اپنے محلے کا ایک ڈان یاد آیا، جس کا نام تو اعجاز تھا جو شاید ہی کسی کو معلوم ہو کیونکہ اسے ’’جج‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ان مواقع پر نواز شریف نے صرف یہ کہا کہ ’’میں اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں پیش کرتا ہوں‘‘اور اللہ بے شک انصاف کرنے والا ہے۔ ایسے ہی ہوا اور اب تمام عدالتوں نے وہ سب مضحکہ خیز الزامات ردی کی ٹوکری میں پھینک دیئے ہیں، جن میں پانامہ کیس میں اقامہ لینے اور اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینےکو کرپشن قرار دینے پر سزائوں کے علاوہ بہت گندی زبان بھی استعمال کی گئی تھی۔
نواز شریف کا عشق پاکستان سے ہے اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کی اکثریت اس سے محبت کرتی ہے، اس نے قوم سے کبھی یہ وعدہ نہ کیا کہ وہ اقتدار میںآکر ایک کروڑ نوکریاں دے گا، پچاس لاکھ گھر تعمیر کرے گا۔ تمام گورنرز ہائوسز کی دیواریں گرا کر وہاں یونیورسٹیاں قائم کی جائیں گی۔ اس کی زبان پر اپنے سیاسی حریفوں کیلئے شاید ہی کوئی دشنام سنی گئی ہو، اس نے کسی کو یہ دھمکی نہیں دی کہ تمہیں نہیں چھوڑوں گا، نہ اپنے ابتلا کے دور میں جلائو، گھیرائو اور متحارب جماعت کے عام اور خاص لوگوں کو پبلک مقامات پر ہراساں کرنےکیلئے گروپ بنائے۔اس نے اپنے دور میں سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کے باوجود مخالفوں کو گالی گلوچ اور جھوٹے الزامات لگانے کی گھٹیا کوشش نہیں کی، اسکے ساتھ مقتدرہ کے کچھ لوگوں نےوکٹ سے باہر کھیلنے کی کوشش کی مگر انہیں اپنے سب اداروں سے محبت ہے چنانچہ اس کے جواب میں انہوں نے نو مئی ایسے سانحہ کے بارے میں سوچا تک نہیں، مریم نواز نے بہت خوبصورت بات کی کہ ہم نو مئی والے نہیں، اٹھائیس مئی والے ہیں، جب ایٹمی دھماکوں سے وطن کے دفاع کو مضبوط کیا گیا۔
نواز شریف ایک وژنری لیڈر ہے وہ پاکستان کو ایک جدید فلاحی مملکت بناناچاہتا تھا۔اس کے پاس معیشت کی بحالی کا ایک جامع پروگرام تھا، اسے جو تھوڑا بہت وقت دیا گیا اس نے سارے ملک میں موٹر ویز کے جال بچھا دیئے۔ لوڈشیڈنگ پر قابو پایا، بے روزگاری میں کمی کی، اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آج سے کہیں ارزا ں تھیں، ملک خوشحالی کی طرف گامزن تھا، ابھی انہوں نے بہت کچھ کرنا تھا مگر انہیں موقع نہ دیاگیا۔ اب وہ ایک دفعہ پھر میدان میں اترے ہیں اور ان کے تمام رفقا جو ان کے پہلے دن سے ہم سفر تھے، آج بھی ان کے ہمقدم ہیں، نواز شریف کی قید اور جلا وطنی سے ان کے قدم نہیں لڑکھڑائے، ان کی اکثریت نے ان کے ساتھ جیلیں کاٹیں، کسی نے پریس کانفرنس نہیں کی کہ ’’حامل رقعہ ہذا سے میرا کوئی تعلق نہیں‘‘ سب ان کے ساتھ ڈٹے رہے اور آج بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ان کے پرانے ساتھیوں میں سے صرف چودھری نثار علی اور شاہد خاقان عباسی نے اپنی سوچ کے مطابق اپنی راہیں جدا کرلیں مگر یہ گواہی دے کر گئے کہ نواز شریف نے زندگی میں کبھی ایک پائی کی بھی کرپشن نہیں کی۔ آج ایک پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے اپنے اس لیڈر کے بارے میں کیا کیا انکشاف کر رہے ہیں حتیٰ کہ ان کی ازدواجی زندگی بھی ان کے الزامات سے نہیں بچ سکی۔
نواز شریف سے جو لوگ ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں اس کی ایک وجہ ان کا ’’زمین کا بیٹا‘‘ ہونا بھی، وہ انہی گلی محلوں میں رہے ہیں جن میں وہ رہتے ہیں، وہ انہی کرکٹ گرائونڈز میں کھیلتے رہے ہیں، جن میں عوام کھیلتے ہیں، تین دفعہ وزیر اعظم بنے اور میاں محمد شریف کی بے پایاں محنت کے نتیجے میں دوسرے صنعتی خاندانوں کے ساتھ یہ خاندان بھی سیاست میں آنے سے برس ہا برس پہلے بزنس ٹائیکون بن گیا، مگر دینی اور زمینی پس منظر کی وجہ سے ان کے گھر کا ماحول وہی رہا جو عام پاکستانیوں کا ہے۔ میں اگر کسی پارٹی کو ووٹ ڈالتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں اسے سب سے بہتر گردانتا ہوں،سو میں خود کو نیوٹرل نہیں کہوں گا کیونکہ ’’نیوٹرل تو منافق ہوتا ہے‘‘۔ ان دنوں پارٹی نے بہت ’’سریلا‘‘ سلوگن دیا ہے اور وہ یہ کہ ’’پاکستان کو نواز دو‘‘اس میں سمجھ والوںکیلئے بہت کچھ ہے، پاکستان کیلئے دعا بھی اور نواز شریف کے ایجنڈے کی تکمیل کی بھی۔اور آخر میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ یہ نعرہ انیس سو نوے کی دہائی میں ٹی وی کے ایک بہت بڑے آدمی، بہت بڑے انسان اور بہت صاحب مطالعہ شخصیت نے دیا تھا اور مجھے یہ بات سرتاج عزیز مرحوم اور نذیر ناجی نے بتائی تھی۔