حالات ناگفتہ بہ ، ساری تکلیفیںعوام الناس کے لیے، جس کو ذات ِ باری تعالیٰ نے اشرف المخلوقات پیدا کیا، حکمرانوں نے حشرات الارض بنا دیا۔ کم وبیش 6 دہائیوں سے قوم ایک قدم آگے بڑھتی ہے تو دوپیچھے پھسل جاتی ہے، وطن ِ عزیز آج منزل ِ مقصود سے کوسوں دور۔ پچھلے تین کالم’’ آپریشن کامیاب، مریض چل بسا‘‘، ’’ بلف گیم‘‘ اور’’ بلیم گیم‘‘ میں اپنا مافی الضمیر کُھل کر بیان کیا ، آنے والے دنوں کا نقشہ باندھا ، اس موضوع پر اب کچھ اور کہنے لکھنے کو نہیں۔ بدنصیبی ہو گی اگر نقشہ بندی کے مطابق حالات آگے بڑھے۔ دوکمیٹیاں تووجود میں آچکیں، مسئلہ مزید گمبھیر۔ خرد کے بغیر خرد کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش رائیگاں ہی جانی تھی ۔میرے نزدیک ایک کمیٹی ہی کافی رہتی اگر خالص امریکی ہوتی کہ مسئلے کی جڑ تک پہنچے بغیر ہر کاربیکار، آج مذاکرات کی گتھی الجھنا اچھنبے کی بات نہیں۔ آپریشن جو ہو کر رہنا ہے، مارچ میں اس لیے لازم کہ بدقسمتی سے اپریل مئی میںافغانستان کی تاریخ کے بدترین الیکشن دیکھنے کو ملیں گے، افغانستان میں آنیوالے دنوں میںکشت وخون، ہمیںافغان مہاجرین کی نئی کھیپ سے نبردآزماء کر جائے گا؎
آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے
دوسری طرف بلوچستان کراچی کے حالت دگردوں ، آپریشن کی چمک ، کراچی بلوچستان میں آگ اور طوفان کی تمہید ہی سمجھیں۔غیر سنجیدگی کا اس سے اندازہ لگائیں کہ حکمران بنفس نفیس مذاکرات سے پہلو تہی کر چکے ، بظاہر شترمرغ کی طرح سر ریت میں جبکہ قومی قیادت کے متمنی تبدیلی رضاکار راہ ِ فرار میں عافیت جان چکے۔یااللہ!کیا ماجرا؟چوری کھانے والے مجنوں ہمارے رہنماء بننے پر مصر ، اقتدار و اختیارات کے شوقین ، چیلنجز پر ’’دُڑک پروگرام‘‘ ۔عمران خان کی یہ بات صائب کہ نواز شریف کو مذاکرات کی خود قیادت کرنی چاہیے تھی لیکن یہ فارمولا موصوف کو اپنی ذات پر بھی فٹ کرنا چاہئے تھا۔وطن ِ عزیزاہم موڑ پر، گفتگو اور بحث کے کلاسیفائڈحصے کو سامنے لانا مناسب نہ تھا۔ دوسری طرف سالٹ رینج کے دامن میں للہٰ(جہلم) کے پہاڑی علاقوں پراسپیشل آپریشن ٹاسک فورس کی مشقیں جاری ۔ کل ہی ایف سی کے 23 نوجوانوں کو شہید کرنے کا دعویٰ سامنے آیا جبکہ پچھلے کچھ دنوں سے عسکری اداروں اور پولیس کو بلاوجہ نشانہ بنایاگیا۔ لگتا ہے مذاکرات کا لفظ ہی ’’ اتھرے بیل کو سرخ کپڑا دکھانے کے مترادف‘‘ ۔ ملکی سا لمیت ، خودمختاری، دینی اقدار سب کچھ بربادہوچکا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟۔میرا دکھ اور قلق کہ ’’برائی جننے والی ماں‘‘ کا سراغ لگا لیا جاتا تومذاکرات کی سمت بھی ٹھہرتی اور امابعد آپریشن بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتا۔ درجنوں دفعہ لکھ چکا ہوںکہ سانحہ 9/11کے حیلے امریکی تسلط قیام وطن ِ عزیز کی چولہیں ہلا چکا۔چین ، روس اور بھارت کو مختلف حربوںسے شکنجے میں لینے کے چکر میں(بھارت کی تو چاندنی کہ لاٹھی ٹوٹے بغیر دشمن فارغ)، پاکستانی نیوکلیئر پروگرام اورساڈھے پانچ لاکھ مضبوط فوج نے وسوسوںاور اندیشوں کوتوجنم دینا تھا،چنانچہ مکو ٹھپنا امریکی ایجنڈےکا پہلا نقطہ ۔ باقی رہے طالبان ، کراچی کے’’ مخصوص دہشت گرد‘‘ ، بلوچستان لبریشن آرمی، فرقہ واریت، لسانیت ، قومیت سب بائی پروڈکٹس۔قلم کا تقدس ایک عبادت، دانشورانہ بددیانتی کے کاروبار سے واقف نہیں،بغیر تصدیق کے واقعہ بیان کرنا گناہ ِ قبیح ۔سکون اور آخرت کا برباد ہونا لازم۔بفرضِ محال حقائق غلط درج ہوبھی جائیں، کئی شب وروز خلجان کا شکار، طبیعت مکدر۔ دوخرابیوں کو برداشت کرنا ہوگا، تجزیہ میں تعصب کی عینک اتارنہیں پاتا،اپنی رائے کو دوسروں پرٹھونسنے کی بے ہنگم عادت اوائل جوانی ہی سے اوڑھنا بچھونا۔حاصل ِمطالعہ اور دیانتدارانہ رائے کہ حکمرانی سیاست کا محور امریکہ ، پاکستان میں خرابی کی جڑ نالائق، کرپٹ رہنماء جوعوام کیلئے فولاد اور اغیار کے آگے موم کی ناک۔ عظیم قائد ،46 سال جہد ِمسلسل کی درخشاں مثال، نے مسلمان عوام کا شعور بیدار کیا ،وقت کی طاقت اوراسٹیبلشمنٹ کو پچھاڑا ،نتیجہ میں عوامی طاقت مملکت ِ خدادا کی تخلیق کا سہرا سجا بیٹھی ۔ عصر ِ حاضر کا مورخ سٹینلے وولپرٹ تخلیق ِپاکستان کو تاریخ انسانی کا ایک مافوق الفطرت اور محیر العقول واقعہ قرار دیتا ہے ۔ عظیم قائد کو وولپرٹ کا خراجِ تحسین ،قول زریں، ’’ معدودے چند ہی ہوں گے جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدلہ، اس سے بھی کم جنہوں نے جغرافیہ یا نقشہ تبدیل کیا، ایک بھی ایسا نہیں جس نے قوم تشکیل دی ہو۔ جناح کو تاریخِ انسانی میں منفرد اعزاز کہ یہ تینوں کام کیے ‘‘۔ قائداعظم کی آنکھیں موندھتے ہی وطن عزیز محلاتی سازشوں کی گرفت میں ، قائدِ ملت کی شہادت اس کا باقاعدہ نقطہ آغاز ہی سمجھیں۔ طاقت کا نیا چشمہ پھوٹا ، امریکی ایڈ سارے مسائل کا منبع جبکہ امریکہ کمبل۔کاسہ لیس، حکمران اور عوام بھکاری،مسکین ، رفیق۔ حکمراں جب بھی دھکے دے کر اقتدار سے نکالے گئے، تو عوام بھی ٹھس سے مس نہ ہوئی۔ چند سال پہلے ترکی کے طبیب اردگان کی مثال دیکھیں جرنیلوں ، عدالتوں کے گٹھ جوڑ سے خطرہ محسوس ہوا ،اسمبلیاں تحلیل ،عوام سے رجوع کیا ،اقتدار بھی بچ گیا ، سازشیوں کا قلع قمع ہوا۔ سیاستدانوں کی تاریخ عجب ، طاقت کا سرچشمہ عوام کا نعرہ لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے مرعوب نہ ہوئے ہمیشہ جرنیلوں، غیر ملکی سفارتکاروں میںتالیف قلب ڈھونڈی۔ جب بُرا وقت آیا تو 1977 میںمتنازعہ اسمبلی کے فلور پر چیخ چیخ کر بتایا کہ ہاتھی (امریکہ ) میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑچکا،آفرین اقتدار سے چمٹے رہے ، عوام کا آسرا لیا نہ عوام آسرابنے ۔بے نظیر نے 10 اپریل 1986 کوپاک سرزمین پر قدم رنجہ فرمایاتو تاریخ ایسا ہجوم پیش کرنے سے قاصر ۔یہ بات طے ہوئی کہ عوام نے بھٹو صاحب کی پھانسی کا باقاعدہ سوگ منایا۔ پیپلزپارٹی اور بائیں بازو کے دانشوربغیر کسی لگی لپٹی بھٹو صاحب کی پھانسی کا اصل ذمہ دار امریکہ کو ٹھہراتے رہے۔ عوام کا جمِ غفیر بی بی کو متاثر کیا کرتا، جیالوں نے جب نعرہ لگایا ’’امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے‘‘ تو محترمہ بھٹو نے بنفس نفیس مجمع کو امریکہ کے خلاف نعروں سے روک دیابعد کے ایام میں، پیپلز پارٹی کے تینوں اقتدار مبینہ طور پر فوج اور امریکہ کی مرہونِ منت گردانے گئے ۔میاں نواز شریف پر جب کڑا وقت آیا تو انہوں نے بھی عوام پر اعتماد نہ کیاچنانچہ عوام سے یہ شکایت بنتی ہی نہ تھی کہ’’ جب میں نے قدم بڑھائے توعوام غائب‘‘۔2011 عمران خان کیلئے نویدِ مسرت ثابت ہوا، مایوس عوام ٹوٹ کر متوجہ ہوئی۔25 دسمبر 2011 کراچی کا جلسہ کلایمکس ٹھہرا،کیا ضرورت تھی اگلے دن شاہ محمود قریشی کے ساتھ دبئی یاترا کی اورامریکی آشیرباد ڈھونڈنے کی؟ الطاف حسین، فضل الرحمن، اسفند یاروغیرہ کے کیا کہنے، کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ایسے حالات میں جبکہ 18 کروڑ عوام حشرات الارض، ’’مذاکرات ، آپریشن‘‘، ہوگا وہی جو طاقت کا سرچشمہ چاہے گاکہ موگیمبو کا خوش ہونا ضروری۔’’ چڑھ جابیٹا سولی پر،رام بھلی کرے گا‘‘۔