• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دانش بطوطہ صاحب بنیادی طور پر ایک ’روٹی ویشنل سپیکر‘ ہیں۔ روٹی روزی کے لیے ٹاک شو، وی لاگ، کالم اور مردانہ صحت کی دوائیاں بیچنے کے ساتھ ساتھ سیر و تفریح کیلئے ’قافلے‘ بھی لے کر جاتے ہیں۔ تقریباً ساری دنیا گھوم چکے ہیں۔ ہر اچھی بری جگہ کے بارے میں مکمل علم رکھتے ہیں یا کم ازکم دعویٰ یہی کرتے ہیں۔ اب کی بار انہوں نے پاکستان میں لوگوں کو سیر کرانے کا منصوبہ سوچا اور تقریباً 35 بندوں کا ایک گروپ لے کر گوادر کی جانب عازم سفر ہوئے۔ بھائی صاحب چونکہ عقل کل ہیں اس لیے بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ ہر جگہ سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ جانے والے ’زائرین‘ بہت انجوائے کرتے ہیں۔ سو اِس بار بھائی صاحب گوادر کے لیے نکل تو پڑے لیکن ساری دنیا میں شاید گوادر ایک ایسی جگہ رہ گئی تھی جہاں نہیں گئے تھے، ہو سکتا ہے ’ویزا‘ نہ لگا ہو۔ ان کے ساتھ پینتیس بندوں میں خواتین، مرد اور بزرگ شامل تھے جو ان کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہو کر سیر و تفریح کے شوق میں رقم خرچ کر کے ہم سفر تو بن گئے لیکن ایسے برباد ہوئے کہ اُس کے بعد کانوں کو ہاتھ لگا دیے۔ قبلہ نے بڑے آرام سے سارے وقوعے کا ذمہ دار ریاست کو قرار دے دیا۔ پہلے حضرت پورے قافلے کو کراچی لے گئے اور ویب سائٹ پر تصاویر دیکھ کر منتخب کیے ہوئے ایک فور سٹار ہوٹل میں ٹھہرایا جہاں کھانا بھی ٹھیک نہیں تھا اور واش رومز کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی۔ میں نے پوچھا ’عالی جاہ آپ تو بڑے پلانر ہیں، انچ انچ کی معلومات رکھتے ہیں، آپ کو کسی نے نہیں بتایا کہ کراچی میں پینتیس بندوں کے لیے کون سا ہوٹل یا گیسٹ ہائوس مناسب ہے؟۔‘ کہنے لگے ’بس یہی غلطی ہو گئی‘۔ آگے کی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ کراچی سے قافلے کو بائی روڈ بذریعہ کوسٹل ہائی وے گوادر جانا تھا۔ سڑک تو بہت خوبصورت ہے لیکن ساڑھے چھ سو کلومیٹر لمبی اس روڈ کے اردگرد پہاڑ اور ویرانہ ہے، یہ ہائی وے سمندر کے ساتھ ساتھ ہونی چاہیے تھی۔ میں نے چونک کر پوچھا ’آپ انجینئر بھی ہیں؟‘۔ آہ بھر کر بولے، صرف ڈگری نہیں لی، بس یہی غلطی ہو گئی۔

میں نے سرہلایا اور پوچھا کہ آگے کیا ہوا؟ کہنے لگے’ایک تو کوسٹل ہائی وے پر کوئی ریسٹ ایریا، واش روم اور ٹائر شاپ نہیں‘ لوکل لوگوں نے ایک دو مقامات پر چائے خانے وغیرہ بنا رکھے ہیں لیکن وہ گندے بھی ہیں اور بنیادی صفائی سے محروم بھی۔ میں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا ’تو کیا مسافروں سے ’کرایہ‘ پکڑنے سے پہلے یہ ساری چیزیں آپ کے علم میں نہیں تھیں؟‘۔ زچ ہو کر بولے’مجھ سے زیادہ کسی کو کیا علم ہو گا لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے؟‘۔ میں نے ِسہم کر کہا ’لیکن آپ تو فرماتے ہیں کہ آپ ایک ایک قدم رکھنے سے پہلے سوچتے ہیں، غور کرتے ہیں، تو آپ نے پینتیس مسافروں کو ساتھ لے جاتے وقت راستے کے بارے میں کچھ نہیں سوچا؟‘۔ آہ بھر کر بولے،بس یہی غلطی ہوگئی۔

کوسٹل ہائی وے میں ایک اور بڑا نقص انہوں نے یہ نکالا کہ اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے دل بڑا گھبراتا ہے کیونکہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں بی ایل اے کے لوگ حملہ نہ کر دیں۔ اس مسئلے کے حل کی تجویز انہوں نے دی کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ بی ایل اے سے معاہدہ کرے کہ وہ علیحدگی پسندی کے لیے بے شک ریاست سے لڑتی رہے لیکن سڑکوں اور مسافروں پر حملے نہ کرے۔ میں نے سر ہلایا ’اچھا آئیڈیا ہے لیکن اس سلسلے میں آپ خود بی ایل اے کے لوگوں کو ایک موٹیویشنل لیکچر کیوں نہیں دینے جاتے، اُن کا بھی بھلا ہو جائے گا اور ہمارا بھی.....‘ یہ سن کر انہوں نے چونک کر کچھ دیر کے لیے سوچا، جیب سے موبائل نکال کر اُس کا کیلکولیٹر کھول کر کچھ حساب کیا، پھر مزید سوچا،پھر ایک جھرجھری لی اور سرجھٹک دیا اور گویا ہوئے، آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم ’اور ماڑہ‘ پہنچ گئے لیکن یہاں پہنچ کر ایک اور مسئلے کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یہاں صرف دو ریزورٹ تھے۔ ایک پرانا، ایک نیا۔ نئے والا پہلے سے بُک تھا، وہاں نوجوانوں کا کوئی فنکشن ہو رہا تھا۔ پرانے والے کی حالت بہت خراب تھی، کموڈ اور واش روم کی ٹونٹیاں لیک کر رہی تھیں، گرد کی تہہ جمی ہوئی تھی، بستر گندے اور بدبودار تھے اور کھانے کی صورتحال اس سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ اگرچہ ہم کھانا اور باورچی کراچی سے لے کر آئے تھے لیکن ریزورٹ انتظامیہ کے عدم تعاون کی وجہ سے اُس کا معیار بھی برقرار نہ رکھ سکے۔‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’تو آپ نے اتنے لوگوں کو ساتھ لے جانے سے پہلے کسی سے پوچھا نہیں کہ ’اورماڑہ‘ میں رہائش کہاں رکھنی چاہئے یا نئے والا ریزورٹ کب تک خالی ہو گا؟ آہ بھر کر بولے، بس یہی غلطی ہو گئی!

ان کی پوری داستان سن کرمیں نے پوچھا ’گویا آپ کا یہ سفر بہت برا رہا؟‘۔ منہ بنا کر بولے’ہاں، بہت برا‘۔ میں نے کنفرم کیا ’تو کون ذمہ دار ہے اس کا؟‘۔ اطمینان سے بولے ’ریاست‘۔ میں نے اپنی شرٹ کی آستینیں چڑھائیں اور اُن کے کندھے پر سختی سے ہاتھ جماتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا ’دعویٰ تو آپ کا یہ ہے کہ تحریر و تقریر سے لے کر ہر قسم کے انتظامات اور لوگوں کے ذہن پڑھنے میں آپ جیسا ’فرہاد علی تیمور‘ پورے ہند سندھ میں نہیں اور حالت یہ ہے کہ گوادر تک کے سفر میں لوگوں کی چیخیں نکلوا دیں۔ کہاں گئی وہ آپ کی ہرفن مولا ٹائپ قابلیت، وہ مینیجر شپ، وہ آنے والے وقت کو بھانپ لینے کی صلاحیت، وہ لوگوں کو سفر کی صعوبتوں سے بچنے کے مشورے، وہ پری پلاننگ، وہ افلاطونی دانش، کیا سفر پر جانے سے پہلے اِن میں سے کسی کا استعمال مناسب نہیں سمجھا؟ آہستہ سے میرا ہاتھ کندھے سے ہٹاتے ہوئے بولے، بس یہی غلطی ہو گئی!

تازہ ترین