• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف جموں کشمیر کے پہاڑوں اور آزاد کشمیر کی بالائی وادیوں پر برف جمی ہے، اس پر ہوائیں ان کی یخ بستگیاں یہاں تک لے آئی ہیں۔ ایک تو موسم ہی سرد ہے دوسرے پہاڑوں نے بھی ہواؤں سے نہ جانے کیا ساز باز کرلی ہے۔ موسم سرد ہے وہ بھی خشک، گویا ماحول میں خنکی اور خشکی ہے اور سیاسی ماحول بھی سرد مہری سے اٹا ہوا ہے اس سردی میں امیدواروں کے مزاج کی خشکی بھی شامل رہی ۔

سیاست تو کسی اصول ضابطے اور قاعدے کی پابند ہوتی ہے جس میں اپنے انتخاب کےلئے لوگوں کو قائل اور مائل تو کرتے ہیں لیکن یہ کیا کہ آپ دوسروں کو قابل تعزیر ہی سمجھ لیں۔ شاید ہمارے سیاستدان اصول سیاست سے نابلد ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی دوسرے کو عوام کے سامنے کسی معاشرتی اور اجرتی قاتل کے طور پر پیش کرتاہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ سیاستدان اپنے انتخابی جلسوں میں اپنی خدمات گنوائیں نہ کہ دوسروں پر لفظی محاذ کھول دیں ، یہاںیہی چلن رہا ہے کہ آپ اقتدار کیلئے تو دوسروں کا ہر ستم بھلا کر ایک ہو جائیں لیکن انتخابی موسم آتے ہی اپنے اسی اتحادی کو الزامات کی گہری کھائیوں میں پھینک دینا چاہیں اور چاہیں کہ صرف آپ ہی ’’چندا ماموں‘‘ ہوں اور باقی سب انگارے جو سب کا مستقبل جلا کر راکھ کردینگے

۔ ہم تاریخ میںبڑی سیاسی شخصیات کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بلندبانگ دعووں کی بجائے عمل کو ترجیح دی اور اپنے عملی اقدامات سے نہ صرف ملک کی خدمت کی بلکہ تاریخ میں اہم جگہ پائی لیکن پاکستان میں یہ چلن عام ہو چلا ہے کہ کیجئے کچھ بھی نہ، بس شور مچائیے اوراتنا شور مچائیے کہ عوام کی آوازیں اس شور میں دب کررہ جائیں۔دیکھئے صاحب! پاکستان کب آزاد ہوا؟ اور سوچئے کہ ان سے کم برسوں میں اگر چائنہ نے ترقی کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے تو ہم ایسا کیوں نہ کر سکے؟چائنہ کے نہ صرف حکمران بلکہ عوام نے بھی جب اپنے ملک کے حالات بدلنا چاہے تو وہاں کے حکمرانوں نے کرپشن کے معاملے میں کسی اپنے پرائے میں تمیز نہ رکھی جو بھی ملوث پایا گیا اسے عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا ،وہاں حکمرانوں نے ایسی پالیسیاں تشکیل دیں کہ جن سے چائنہ دفاعی ومعاشی بلکہ ہر حوالے سے ناقابل تسخیر بن چکا ہے چائنہ تو اس قدر ترقی کرتا جارہا ہے کہ بعض اوقات اسے اپنی ترقی کے آگے بند باندھنا پڑتا ہے تاکہ غیر ضروری ترقی اسکی معاشرتی پالیسیوں کو نقصان نہ دے، ایسے ہی وہاں کے عوام نے بھی سادہ غذائیں کھانا شروع کردیں۔دکھاوے سے گریز کیا اور اپنے ملک کی ترقی کیلئے اپنے حکمرانوں کا بھرپور ساتھ دیا ایسا نہیں ہوا کہ سالہاسال سے ایک ہی سیاستدان سے دھوکے کھانے والے عوام انتخابات آتے ہی پھر اسکی لچھے دار باتوں میں آکر اپنے ووٹ کی دولت اسکی جھولی میں ڈال کر اسے مالامال کردیں اور خود انکے حالات ویسے ہی خستہ اور شکستہ رہیں۔ جہاں ہمارے سیاستدان قصور وار ہیں وہاں ہم بھی برابر کے گناہگار ہیں ہم نے بھی ان سیاستدانوں کو خود ہی مواقع فراہم کئے کہ وہ ہم پرمسلط ہو کر ہمیں لوٹ کر چلتے بنیں۔ ہمارے حکمرانوں کا ماضی اور کردار تو رہا ایک طرف ہم عوام نے بھی کبھی اپنا وہ کردار ادا نہ کیا جسکی پاکستان کو ضرورت ہے ۔ہم ایک سیاستدان کو پانچ سال کیلئے منتخب کرکے اسکی کج روی پر آئندہ انتخابات میں ووٹ نہ دینے کا اعادہ کرتے ہیں اور پانچ سال بعد پھر اسکے جھانسے میں آکر اس کو لائق بھروسہ سمجھ لیتے ہیں یہی سلسلہ اب تک چلا آرہا ہے۔جرمنی میں ایک ڈرائیونگ لائسنس کا ملنا بڑی ڈگری ملنے کے مترادف ہے لوگ ڈرائیونگ لائسنس ملنے پر مبارکبادیں دیتے ہیںڈرائیونگ لائسنس کے حصول کیلئے باقاعدہ ایک تعلیم ہے جسے حاصل کرکے کوئی ڈرائیونگ لائسنس لینے کا اہل ہوتا ہے اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے بعد اسکا استعمال بھی بڑی احتیاط سے کرنا پڑتا ہے لائسنس کے کچھ پوائنٹ ہوتے ہیں مثلاً گاڑی چلانے میں کسی غلطی پر ایک پوائنٹ ختم کردیا جاتا ہے اور اگر سارے پوائنٹ ختم ہوگئے تو سمجھئےلائسنس ختم جرمنی میں ایک ڈرائیونگ لائسنس کے لئے اس قدر جدوجہد یا محنت کرنا پڑتی ہے جتنی ہماری یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے اور تعلیمی ڈگری لینے میں ہو تی ہے۔ایسے ہی دنیا کے دوسرے ممالک ہیں جنہوں نے ترقی کی بنیاد محنت، امانت ،دیانت اور صداقت کے اصولوں پر رکھی ہے اور ہم ہنوز انہی راستوں میں بھٹک رہے ہیں جہاں ہم پچاس سال پہلے تھے ہمارا امیدوار آج بھی اپنے ووٹر سے وہی وعدے کررہا ہے جو وعدے پچاس سال قبل کئے جاتے تھے یعنی پچاس سا ل سے انتخابات کے موسم میں امیدواروں کے وعدے ہی نہیں بدلے مثلاً ۔میں علاقے کی تقدیر بدل دوں گا،نوجوانوں کو نوکریاں ملیں گی،سڑکیں بنائیں گے،فیکٹریاں لگائیں گے،سکولز بنائیں گے،ہسپتال بنائیں گے وغیرہ وغیرہ جب پچاس سال میں انتخابی نعرے اور وعدے ہی نہیں بدلے تو پھر یہ روایتی سیاستدان ملک کو کیسے بدلیں گے؟ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ تک ان سیاستدانوں کے جلسوں میں ڈھولک کی تھاپ پر دھمال ڈال رہا ہوتا ہے ۔صرف انتخابی موسم میں نکلنے والے سیاستدانوں کو ہم پھولوں کے ہار پہنا رہے ہوتے ہیں حالانکہ پانچ سال ہم انکے دیدار سے محروم رہتے ہیں بالفرض انکی کہیں زیارت ہو بھی جائے تو اتنی کہ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے جاتے دکھائی دے جاتے ہیں۔ نہ ہمارے سیاستدان بدلے ہیں اور نہ ہی ہم۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حالات بھی نہیں بدل رہے حالات کے بدلنے کیلئے لازم ہے کہ ہمارے معاملات بھی بدلیں وگرنہ وہی بے ڈھنگی چال ہے جو ہم ہمیشہ سے چل رہے ہیں ایسے تو ہم راستوں میں کھو کر رہ جائیں گے، منزل ہم سے پہلے ہی بہت دور ہوچکی ہے منزل تو کیا ہم نشان منزل تک نہیں پا سکے ہمارے راستوں میں ایسے موڑ آچکے ہیں جہاں سے گزرنا محال ہوا جاتا ہے اور یہ وہ موڑ ہیں جن سے آگے ہماری منزلوں کے نشان ملتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین