• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں پاکستان میں اسلامی نظام (شریعت) کے موضوع پر ہونے والی بحث میں میں نے بہت سے بڑے بڑے سیاستدانوں، وکلاء، دانشوروں وغیرہ کو یہ کہتے سنا کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہے جس کے مطابق یہاں کوئی بھی قانون قرآن اور سنت رسولﷺ کے خلاف نہیں بن سکتا۔ آئین میں یقینا یہی بات لکھی ہوئی ہے مگر یہ کہنا کہ ہمارا ہر قانون قرآن اور سنت کے مطابق ہے سراسر جھوٹ اور فراڈ ہے۔ نجانے اس جھوٹ فراڈ کے ساتھ ہم کسے دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں مگرہم جو پہلے ہی اپنی حرکتوں کی وجہ سے اللہ کی پکڑ میں آئے ہوئے ہیں اللہ کو مزید ناراض کرنے سے ابھی تک باز نہیں آ رہے۔ یہ تو شرمندگی کا مقام ہونا چاہیے کہ ہم نے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان اور اس میں رہنے والوں کے ساتھ نہ صرف دھوکہ کیا بلکہ آئین کی اسلامی شکوں پر کبھی عمل درآمد نہ کیا۔یہ دعوی کرنے والے (جن میں سیاستدان اور پارلیمنٹیرین بھی شامل ہیں) کہ یہاں کوئی قانون قرآن اور سنت کے برخلاف نہیں بن سکتا، اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی کسی ایک رپورٹ پر بھی آج تک ہماری پارلیمنٹ یا کسی بھی صوبائی اسمبلی نے غور تک نہیں کیا۔ گزشتہ چار دہایوں کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل آج تک پاکستان میں نافذالعمل تقریباً چھ ہزار سے زیادہ قوانین کا جائزہ لے چکی ہے جن میں سیکڑوں ایسے قوانین کی نشاندھی کی گئی جن کو قرآن اور سنت کے منافی قرار دے کر اُن میں ضروری ترامیم کی تجاویز دی گئیں۔ یہ تجاویز سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں سالہہ سال سے سالانہ رپورٹس کی صورت میں پیش کی جا رہیں مگر کسی ایک رپورٹ کو بھی کھول کر دیکھنے کی بھی توفیق کسی اسمبلی یا کسی پارلیمنٹ کو نہ ہوئی اور اس کے باوجود کس بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ یہاں کوئی قانون قرآن اور سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ میں نے کبھی نہیں پڑھا یا سنا کہ پارلیمنٹ یا کسی بھی اسمبلی میں کوئی قرارداد پیش کی گئی ہو کہ آخر یہ دھوکہ کب تک چلے گا؟ یہ آئین کی خلاف ورزی کب تک ہوتی رہے گی؟ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے بھی یہاں کون سا مسئلہ ایسا نہیں تھا کہ جس پر سو موٹو نہ لیا ہو مگر اس کھلی آئین شکنی پر کیوں کوئی جج، کوئی عدالت نوٹس نہیں لیتی۔ حکومتیں ایک کے بعد ایک آتی رہیں مگر کسی حکومت کو اس آئینی خلاف ورزی کا خیال کیوں کبھی نہ آیا۔ جب ہم اس قدر بے ایمان ہو جائیں گے اور وہ بھی ایک ایسے معاملہ میں جس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو تو ہم پر طرح طرح کے عذاب کیوں کر نازل نہ ہوں گے۔
آئین کے آرٹیکل 227کے مطابق پاکستان میں موجود تمام قوانین کو قرآن اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق کیس جائے گا اور یہاں ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔ آئین کے آرٹیکل 228 کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کو تشکیل دیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 230 کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے کارہائے منصبی میں جو نکات شامل کیے گئے ان میں کچھ اہم درج ذیل ہیں: پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا جن سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیوں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کی ترغیت اور امداد ملے جن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے؛ ایسی تدابیر کی جن سے نافذالعمل قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق بنایا جانے کے ساتھ ساتھ ان کو نافذ العمل بنایا جانے کی سفارش کی جائے؛ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی رہمنائی کے لیے اسلام کے ایسے احکام کی ایک موزوں شکل میں تدوین کرنا جنہیں قانونی طور پر نافذ کیا جا سکے؛ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے پیش کی گئی سالانہ رپورٹس کو چھ ماہ کے اندر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور ہر صوبائی اسمبلی کے سامنے برائے بحث پیش کیا جائے گا تاکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیاں ان رپورٹس پر غور و خوص کرنے کے بعد ان سفارشات کی روشنی میں قوانین وضع کرے گی۔ اس واضع آئینی حکم کے باوجود ہماری ہر اسمبلی، ہماری ہر پارلیمنٹ، ہماری ہر حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل کی کسی بھی رپورٹ کو کھول کر بھی نہ دیکھا۔ بحث کرنے کا تو کبھی موقع ہی نہیں آیا۔ اس آئینی خلاف ورزی، اس دھوکہ اور فراڈ پر ہر طرف خاموشی کیوں۔
تازہ ترین