• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افسوس کہ یہ خبر پوشیدہ رہی کہ سندھی قوم پرست نوجوان کارکن صاحب خان گھوٹو کو ایجنسیوں نے روہڑی سے اغوا کر کے تین دن کے بعد اس کی مسخ شدہ اور گولیوں سے چھلنی لاش نوشہرو فیروز ضلع میں بھریا شہر کے پاس پھینک دی۔ سندھیوں اور بلوچوں اور اردو بولنے والوں کو مسخ شدہ یا ٹارچر شدہ لاشوں کی ڈلیوری باقاعدہ جاری و ساری ہے کیونکہ یہ طالبان نہیں۔ ان سطروں کے لکھنے تک مجھ سے گمشدہ سندھی قوم پرست کارکن مشتاق سومرو کے ایک دوست نے اس کی گمشدگی پر اپنی تشوش ظاہر کی۔
پاکستان میں دو متوازی جنگيں جاری ہیں۔ ایک جنگ جو طالبان پاکستان کے عوام اور ریاست سے لڑ رہے ہیں دوسری جنگ جو ریاست نے کراچی، اندرون سندھ اور بلوچستان میں برسوں سے شروع کی ہوئی ہے۔ سندھی افسانہ نگار زاہد میرانی نے اپنے تازہ افسانے ’’شہیدوں کا صاحب‘‘ میں صاحب خان گھوٹو کی موت پر یوں لکھا’’یتیم قوم کو مارنے والے اور کون ہوسکتے ہیں۔ اس قوم کے لوگوں میں سے کن کو این ایل سی کے ٹریلروں نے کچل کر مارڈالا، تو کن کو ایک معروف رئیل اسٹیٹ ڈیلرکے ڈمپروں نے، باقیوں کو پنجابی سرکار کے لوگوں نے‘‘۔ بچپن سے جئے سندھ بارڑا سنگت اور جوانی میں جئے سندھ متحدہ محاذ کے کارکن ہونے کے جرم میں گم کرنے کے بعد قتل کرکے اس کی لاش کو سندھ پنجاب بارڈر پر گھوٹکی چھوڑ کر آئے۔
عالمی میڈیا یہ خبریں دے رہا ہے کہ کراچی کے دس فی صد یا ایک تہائی حصے پر عملاً طالبان کا کنٹرول ہے۔ کیا واشنگٹن پوسٹ، کیا لاس اینجلس ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل نے تو کراچی کا نقشہ دیکر اپنی جامع تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کن کن اضلاع ، غربی، شرقی اور سینٹرل میں کہاں کہاں طالبان مورچہ بند ہوچکے ہیں۔
کراچی ہے کہ وانا وزیرستان کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، جرگے یانام نہاد شرعی عدالتیں، و میگا قتل وغارت گری نے کراچی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی میں مصروف پولیس و فوج کے صف اول کے سپاہی و افسر ہی طالبان کے ہاتھوں قتل ہوجائیں،طالبان اس کی ذمہ داری بھی قبول کریں اور حکومت ہے کہ اب بھی کمیٹی کمیٹی کھیل رہی ہے ۔بقول شخصے مکالمے کے نام پر خود کلامی میں مبتلا ہے۔ جب میں نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ حکومت طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہے تو اس نے کہا تو پھر فوج کیا کر رہی ہے۔ مجھے اس گانے کے بول یاد آگیا کہ تیرے معصوم سوالوں سے پریشان ہوں میں۔
حکومت تو خود کلامی میں مبتلا ہے لیکن فوج واقعی کیا کر رہی ہے؟
سرحدوں کی نہ پاسبانی کی
ہم سے داد لی جوانی کی
(حبیب جالب)
کراچی میں آپریشن بغیر کسی امتیاز ہر کسی کے خلاف ہورہا ہے۔ اگر نہیں ہو رہا تو طالبان اور طالبان جیسی تنظیموں کے خلاف نہیں ہو رہا۔
باتدبر غیر سویلین قیادت کی نظر آج کے کراچی، آج کے پاکستان شاید آج کے ریجن پر نہیں، اس دن پر ہے جب افغانستان سے نیٹو کی فوجیں واپس ہوں گی پھر راج کرے گی خاص خلق خدا۔ صوفیوں کے مزاروں کو اڑایا جا رہا ہے۔ اب تو قبرستانوں پر فاتحہ پڑھنے کو جانے سے پہلے ان سے پوچھنا پڑے گا۔جو
حجاموں لختيوں سے، ٹپوں گیتوں سے کبھی بدھ سے، کبھی رحمٰن بابا کی غزل سے یہ الجھتے ہیں۔
ان کی اپنی شریعت، اپنا خدا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اگر ان کو بلھے شاہ ہاتھ آجاتے تو اس سے یہ کیا کرتے؟ جس نے کہا تھا: کہے مسلّے ڈسیندیئيں قاضیا، عشق شرع کیا لگے لگے۔اب اس سطر پر کون سی ان کی حد لاگو ہوگی۔
لیکن یہ طے ہے کہ ملک اور سندھ کے وجود کے بقا کی آخری جنگ کراچی میں لگنی ہے،گھمسان کا رن پڑنا ہے۔سندھڑی کو ہر دفعہ قندھار سے خطرہ ہے۔ صدیوں قبل بزرگ صوفی اور پیشن گو فقیر عبدالرحیم گرہوڑی نے کہا تھا۔
یہ طالبان بھی سمجھتے ہیں اسی لئے انہوں نے کراچی کا رخ کیا ہے۔ جب کسی کی شامت آتی ہے تو شہر کا رخ کرتا ہے۔
کہ باقی ماندہ پاکستان میں سندھ ایک ایسا حصہ ہے جو ابھی تمام کا تمام انتہاپسند گیدڑوں نے نہیں کھایا ہے۔
یہاں واقعی بندوق پر ساز و آواز سے فتح حاصل کی جاسکتی ہے۔ عدم تشدد سے تشدد والوں کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ سندھ ایک عجیب ملک ہے یہ بات مجھے کئی برس ہوئے کہ کھتاس میں ایک پختون ملنگ نے بتائی تھی۔
جس طرح صاحب خان گھوٹو کی گمشدگی اور پھر تشدد کے ذریعے اس کا قتل قابل مذمت ہے اسی طرح ٹرینوں پر حملے اور بے گناہ مسافروں کے قتل بھی قابل مذمت اور قبیح فعل ہیں۔ رتوڈیرو کا ریٹائرڈ واپڈا ملازم غلام اللہ سومرو بھی خوشحال خان ایکسپریس کے مسافروں میں شامل تھا یہ بیچارہ اسلام اباد اپنی پنشن لینے جار ہا تھا۔ مقتول مسافروں میں دو بچے بھی شامل تھا۔ بلوچ ری پبلیکن آرمی نے اس دہشت گردانہ کارروائی کا اعتراف کیا ہے۔ بلوچو! یہ کیسی آزادی کی جنگ ہے جو غلامی کی راتوں کو اور طویل کردے گی۔
ماما قدیر بلوچ کو دیکھو بندوق کے بجائے میگافون اٹھا کر پاکستان کے اس حصے سے پائوں زخمی پائوں سے بلوچ بہنوں کے ساتھ اپنے گمشدہ پیاروں کی رہائی اور ان کی تلاش میں ملک کے اس حصے سے گزر رہا ہے جسے چھوٹے صوبوں میں کئی لوگ اب بڑا بھائی نہیں کوفہ کہتے ہیں۔ جیسے جوہر میر نے ضیاء الحق کے دنوں میں بیگم بھٹو کی سہالہ سے نظربندی ختم کر کے سندھ لوٹنے پر کہا تھا،اسلام آباد کے کوفے سے میں سندھ مدینے آئی ہوں۔
ماما قدیر بلوچ اور بلوچ خواتین اور بچے گھوڑا پال اور جہادی پال اسکیم والے علاقوں سے بھی گزرے ہوں گے شاید ان علاقوں سے بھی جہاں کی چھاونیوں کے خفیہ قید گھروں میں شاید بلوچ و سندھی گمشدہ قید ہوں۔ برستی بارشوں میں گویا مارشل لا نام کی بھنگ پیئے گلیوں والے پنجاب میں وۂ کربلا کے ان مسافروں کا یا نعرہ زرینہ مری بلوچ کو رہا کرو بھی بصدا صحرا کی بازگشت کی طرح واپس آتا ہے۔ زرینہ مری جس کے ہونے سے سب انکاری ہیں رحمٰن ملک سے لیکر چوہدری نثار تک۔
وہ لوگ کیا ہوئے جو پلیجو اور جام ساقی کا استقبال کیا کرتےتھے۔ جو لوگ پورے ملک میں ہراول کہلاتا تھا جس کی تعداد بمشکل دو ہزار تھی، کچھ مر کھپ گئے، کچھ این جی اوز میں کھپ گئے اور باقی کچھ بچے تو مہنگائی مار گئی۔ اس عہد کے آخری سپاہیوں میں سے پختونخوا کے افضل لالہ ہیں جو آخری دم تک طالبان سے لڑ رہے ہیں لیکن پنجاب میں صورتحال اتنی بھی خراب نہیں مجھے یاد ہے جب جامعہ پنجاب میں پہلی بار سندھ سے آنے والوں نے ما چُک ایں بلوچانی ( ہم بچے ہیں بلوچوں کے) گایا تھا۔ تو میزبانوں نے کہا تھا’’کامریڈ بھاگو‘‘ کہ ہاکیوں اور ڈنڈوں سے استقبال کرنے والے پہنچ گئے ہیں۔
لیکن ان بیچارے اپنے پیاروں کی تلاش میں پائوں زخمی سہی پیدل مارچ والوں کو تسلی بخش جواب کیوں نہیں دیا جاتا ۔کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ان کے پیارے کہاں ہیں اب تک زندہ ہیں بھی کہ نہیں!
اب تو شیخ ایاز کی وہ نظم ’’میرے دیدہ ورو، میرے دانشورو پائوں زخمی سہی ڈگمگاتے چلو‘‘ جو وائسز گروپ کے بیدل مسرو بدوی اور شاہد بھٹو گانے والے گاتے تھے بلاول بھٹو نے ہآئی جیک کرلی۔ وہ چوہدری اعتزاز احسن جو ریاست ہوگی ماں کے جیسی گانے والا اب سندھی وڈیروں کے ساتھ سندھ کے تیتروں کا شکار کر رہا تھا جس وقت سندھ کے نوجوانوں کو ریاست تیتروں کی طرح مار رہی تھی۔جنرل وحید کاکڑ سے لیکر اعتزار احسن تک سب سندھ کے تیتروں کا شکار ہی کھیلتے ہیں۔
تازہ ترین