• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری قومی سیاست پر چھائے شکوک و شبہات کے تمام بادل چھٹ چکے، ہر چیز روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکی۔ ان انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی جس طرح ڈھیر ہو چکی تھی کون کہہ سکتا تھا کہ پختونوں کی وفا شعاری علی امین گنڈاپور کو کے پی میں وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار بنا دے گی۔ ہمارے یہ بھائی اس سے بھی شاید بہت آگے کا سوچ رہے تھے اسی لیے بیرسٹر گوہر خان اس نوع کے اعلانات کرتے پائے گئے کہ ہم پنجاب اور وفاق میں بھی حکومت بنائیں گے حالانکہ اس کاسرے سے کوئی امکان نہ تھا۔ یہ بھی سب پر واضح ہوچکا تھا کہ وفاق میں تین بڑی پارٹیوں کو جو مینڈیٹ ملا وہ اس قدر split تھا کہ کوئی بھی پارٹی تنہا حکومت سازی کی پوزیشن میں نہ تھی۔ انتخابات میں پی ٹی آئی کے نوجوانوں کا جذبہ بلاشبہ قابلِ تحسین ہے، مگر افسوس انکے محبوب لیڈر کی غیر سیاسی اپروچ کے کارن ساری کی ساری جدوجہد سیاسی ثمرات لانے کی بجائے کے پی کے پہاڑوں میں تحلیل ہوکر رہ گئی۔ دھاندلی دھاندلی کے الزامات کا حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا تاوقتیکہ انہیں عدالتوں میں ثابت کیاجائے یا پھر 1977ء کی طرح بھرپور عوامی احتجاجی تحریک کے ذریعے سب کچھ دریا برد نہ کروادیا جائے۔ ہمارے کچھ دوست اپنا موازنہ جس طرح شیخ مجیب الرحمن سے کر رہے ہیں یہ درست نہیں ہے، شیخ صاحب نے تین سو کے ایوان میں کلیئرکٹ میجارٹی حاصل کرتے ہوئے ایک سو باسٹھ سیٹیں حاصل کی تھیں جبکہ ان کے بالمقابل بھٹو کی سیٹیں محض 81تھیں لیکن بھٹو کا اصرار تھا کہ وزیر اعظم میں نے بننا ہے جو ملک تڑوائے بغیر ممکن نہ تھا۔ آج اگر ہمارا کھلاڑی یا اس کے ہمنوا اس نوع کا مطالبہ کررہے ہیں تو وہ خود ہی سوچیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں؟ موجودہ ایوان 266 سیٹوں پر مشتمل ہے حکومت بنانےکیلئے ایک سو چونتیس سیٹیں درکار ہیں آپ کے آزادوں کو 90کی بجائے 100 بھی مان لیا جائے بشمول ایم کیو ایم، کسی”چور“ کے ساتھ اتحاد آپ نے نہیں کرنا تو حکومت آپ کی کیسے بن سکتی ہے؟ صدر کو چاہیے کہ حکومت سازی یا اکثریت ثابت کرنے کیلئے سب سے پہلے پی ٹی آئی کو دعوت دیں تاکہ کوئی مغالطہ نہ رہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو گئی۔ ویسےحالات کے تناظر میں خود ن لیگ کیلئے زیادہ بہتر صورتحال یہ تھی کہ وہ بلاول بھٹو کو خوش کرتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ انہیں دینے پر راضی ہو جاتی۔ ایسی صورت میں شہباز شریف وزیر دفاع بن کر طاقتوروں کے قریب رہ سکتے تھے جبکہ نواز شریف صدرِ مملکت کی ذمہ داری سنبھال سکتے تھے اور مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بن جاتیں۔ اتحادی حکومت کو کوئی فرق نہ پڑتا البتہ پی پی اور بلاول زیادہ خوش ہو جاتے۔ دوسری طرف وزارتِ عظمیٰ کے سنگھاسن پر فوری بیٹھنے کیلئے نواسے کی حسرتیں کسی طرح بھی اپنے نانا حضور سے کم نہیں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ہم ن لیگ کے وزیراعظم کو سپورٹ ضرور کریں گے مگر حکومت میں نہیں بیٹھیں گےتو پھر جناب نئے سیٹ اپ میں وزارتِ خارجہ چھوڑ کرکوئی وزارت نہ لیں۔

آپ دونوں نے بڑا پن سیکھنا ہے تو اس شخص کی بڑائی ملاحظہ کرلیں،سوائے کھلاڑی کے ملک کی جیتی ہوئی ہر سیاسی پارٹی جسے وزیراعظم دیکھنا چاہ رہی ہے۔ ن لیگ کی قیادت میں ابھرنے والے اس جمہوری الائنس کے پاس اس وقت ٹو تھرڈ میجارٹی کے قریب سیاسی طاقت مجتمع ہوچکی ہے کسی عدالت، کسی الیکشن کمیشن، کسی سپریم جوڈیشری، کسی طاقتور مقتدرہ کی طرف سے نواز شریف کے وزیراعظم بننے میں کوئی امر مانع نہیں لیکن وہ صرف یہ سوچتے ہوئے کہ میری پارٹی چونکہ تنہا حکومت سازی میں نہیں آئی، از خود خوش دلی سے پیچھے ہٹ گئے، بغض کے مارے جو مرضی کہتے رہیں درویش اسے نوازشریف کا بڑا پن قرار دیتا ہے۔ اسے اس فیصلے پر اگرچہ افسوس ہوا ہے کیونکہ وہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم دیکھنے کی تمنا اس لیے رکھتا تھا کہ وہ قومی تعمیر و ترقی کے ساتھ سویلین اتھارٹی منوانے اور پاک ہند دوستی کی خاطر مضبوط اور ٹھوس اقدامات کرتے۔ اب ان سے یہ امید ہے کہ وہ پیچھے بیٹھ کر پنجاب اور وفاق میں نئی قائم ہونے والی حکومتوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے تاکہ مریم نواز حکومت پنجاب کے باسیوں کا معیارِ زندگی بلند تر کریں۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی پر بھی یہ واضح فرما دیں کہ سولہ ماہ کی حکمرانی میں آپ نے جو کچھ کیا ن لیگ نے اس کی قیمت سمپل میجارٹی حاصل نہ کرتے ہوئے چکائی ہے،آئندہ آپ بشمول مقتدرہ اپنے تمام تر اتحادیوں کے ساتھ ضرور بناکررکھیں مگر عوامی زخموں پر نمک نہ چھڑکیں اور نہ ہی ہمسائیوں سے متعلق منافرت پھیلائیں۔ یہی منافرت ہمارے ملک میں سویلین اتھارٹی، رواداری، ترقی خوشحالی اور روشن خیالی کیلئے زہر قاتل ہے، وہ ہمسایہ ممالک بالخصوص بھارت سے تعلقات کو بہتر بنائیں۔

تازہ ترین