زندگی میں کچھ خبریں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں پڑھ کر روح تک سرشار ہو جاتی ہے مولانا فضل الرحمٰن کی تازہ ترین پریس کانفرنس میری ایسی کیفیت کا باعث بنی۔ ہائے ہائے۔ کون؟ کہہ کیا رہا ہے۔ ذرا سنیےاور سر دھنیے۔ ’’ان انتخابات میں دھاندلی کے ریکارڈ بنے، انتخابی عمل یرغمال بنا رہا، اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہونگے۔ نواز شریف ہمارے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں‘‘۔ واہ واہ۔ تالیاں۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے داور کنڈی جس دن پی ٹی آئی میں شامل ہوا تھا۔ مجھے تو اسی دن معلوم ہو گیا تھا کہ مولانا صاحب پر کیا گزرنے والی ہے مگر اس وقت ان کی آنکھیں بند تھیں انہیں بانی پی ٹی آئی جیل میں بیٹھا ہوا ایک سزا یافتہ قیدی نظر آ رہا تھا۔ انہیں نہیں دکھائی دے رہا تھا کہ لوگوں کے چہروں پر کیا لکھا ہوا ہے۔ ابھی کہاں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
مولانا نے بھی اپنی شکست کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر بکھیر دیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اگر موجودہ انتخابات کے نتائج درست ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نو مئی کا بیانیہ دفن ہو گیا۔ یقیناً یہ تکلیف دہ بات ہے۔ پی ٹی آئی کی تمام لیڈر شپ نو مئی کے واقعات کی مذمت کر چکی ہے۔ قطعاً یہ تسلیم نہیں کر رہی کہ وہ اس میں کسی طرح سے بھی ملوث ہے۔ اب سچ کیا ہے یہ فیصلہ تو عدالتوں کو کرنا ہے۔ جہاں تک پُر امن احتجاج کی بات ہے تو وہ سب کا حق ہے۔
مولانا کو شاید توقع تھی کہ کچھ نشستوں پر فارم 45 کی ڈلیوری مل جائے گی، جو نہیں مل سکی۔ نون لیگ کی طرف سے مسلسل یہی مشورہ مل رہا ہے۔ ’’وہ جو مل گیا اسے پاس رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا‘‘۔ وگرنہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر بھی برس سکتی ہیں۔ دوسری طرف مولانا سے زیادہ مولانا کی پارٹی کا مزاج برہم ہے۔ کیونکہ مولانا نہیں وہ ہاری ہے۔ مولانا صاحب بڑے جہاں دیدہ آدمی ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ان بارشوں کیلئے بیورو کریسی میں گہرے روابط درکار ہوتے ہیں۔ عدلیہ کے ایئر پورٹ پر خصوصی فلائٹس چلانی پڑتی ہیں۔ کچھ اپنی کارکردگی کے جہاز بھی اڑانے پڑتے ہیں۔ جہاں تک مولانا نے اسٹیبلشمنٹ پر انتخاب چوری کرنے کا الزام لگایا ہے تو میں اس پر نعرہ ِ تکبیر کے سوا کچھ نہیں لگا سکتا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کا دھاندلی کا پروگرام ہوتا تو پی ٹی آئی ایک سیٹ بھی نہ جیت سکتی۔ اسٹیبلشمنٹ نے پوری کوشش کی کہ شفاف انتخابات ہوں مگر نہیں ہو سکے۔ پھر اسےمولانا کی پارٹی کو خصوصی طور پر ہرانے کیا ضرورت تھی۔ مولانا کے لوگ جیتتے تو یقیناً وہی کچھ کرتے جو وہ پہلے کرتے آئے ہیں۔ پریس کانفرنس میں مولانا نے اپنی شکست کا اصل الزام جادوگر اسرائیل پر لگایا ہےکہ حماس کے حق میں بیان دینے پر انہیں ہرا دیا گیا ہے۔ یعنی موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو اسرائیل کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے جو قطعاً قابل معافی نہیں۔بہرحال بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہونے والی ہےجب قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں پر پی ٹی آئی کے ساتھ جے یو آئی بھی براجمان ہو گی۔ بلاول بھٹو نے صرف وزیر اعظم کا ووٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا۔ نون لیگ کے پاس حکومت تو ہو گی کیا سادہ اکثریت بھی ہو گی یا نہیں۔ کیا بیچاری نون لیگ ستر اسی سیٹوں کے ساتھ حکومت چلائے گی یعنی ہر بل پاس کرنے کیلئے اسے اپوزیشن کی منت سماجت کرنا پڑے گی۔ یقیناً ایسا ممکن نہیں سادہ اکثریت کی کوئی صورت نکالنی پڑے گی یا پھر وزیر اعظم بلاول بھٹو کو بنانا پڑے گا۔ مجھے لگتا ہے اس مرتبہ اسمبلی کے اندر کئی وزیر اعظم بدلیں گے۔
ہائے افسوس! مولانا کا صدر پاکستان بننے کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے اور کرچیاں پائوں کے تلوں میں زخم بھی کر گئی ہیں۔ یہ خواب مولانا نے بہت عرصہ پہلے دیکھا تھا۔ پچھلے سال دسمبر میں جے یو آئی کے مرکزی رہنما حافظ حمداللہ نے بھی کہا تھا کہ جب مولانا فضل الرحمان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر منتخب ہو سکتے ہیں تو ملک کے کیوں نہیں ہو سکتے۔ اس وقت یہ سوال بھی آنکھیں مل رہا ہے کہ آئندہ صدر کون ہو گا۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں کی نظریں اس وقت اسی عہدے پر جمی ہونی چاہئیں۔ زرداری صاحب کے وزیر اعظم بننے کا امکان تو پہلے ہی بلاول بھٹو ختم کر چکے ہیں اور محترمہ مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اگلی مرتبہ وزیر اعظم بننا چاہیں گی یعنی نواز شریف بھی مستقبل میں صرف ملک کےصدر بن سکتے ہیں۔ سو اس حوالے سے مولانا کا مستقبل مکمل طور پر تاریک دکھائی دیتا ہے۔
میری سمجھ میں آنہیں رہا کہ مولانا اتنے سیخ پا کیوں ہیں۔ یہ نہیں کہ انہیں اپنی شکست کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اس مرتبہ فتح مندی خاصی مشکل ہے اسی خوف سے انہوں نے اپنے آبائی علاقہ یعنی ڈیرہ اسماعیل کے ساتھ بلوچستان کے ضلع پشین سے بھی انتخابات میں حصہ لیا۔ جہاں انہیں کامیاب کرا دیا گیا۔ اس کامیابی میں اہل پشین کی رائے بالکل ویسی ہی ہے جیسی لاہور اور سیالکوٹ میں نون لیگ کی کئی نشستوں کے بارے میں وہاں کے عوام کی رائے ہے۔ بہر حال مولانا کا غصہ خاصا سوچا سمجھا لگ رہا ہے۔ ممکن ہےکسی سطح پر اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنے کی کوئی پلاننگ ہو۔ بڑے لوگ ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔