• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریکِ انصاف میں اب فیصلے دور اندیشی کے ساتھ ہورہے ہیں جو پہلے اس میں عنقا تھی۔ پہلے فواد چوہدری کا پلڑ ا بھاری تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے ایک لیک آڈیو کال میں کہا تھا کہ یہ پہلے گرفتار ہو جاتا تو اسمبلیاں تو نہ ٹوٹتیں۔ دو مختلف تقاریب میں دو بڑے صحافیوں کو تھپڑ دے مارا۔ ٹی وی پروگرامز میں اینکر پر مسلسل طنزیہ فقرے کستے ۔

دوسری طرف شیخ رشید مخالفین پہ فقرے کس کر رہے ہوتے ۔ ان لوگوں نے عمران خان کو ایک بالکل ہی عجیب راستے پر لگا دیا تھا۔ ایک بار عمران خان نے مخالف خاتون سیاستدان کو کہا :میرا نام اتنا نہ لیا کرو ، تمہارا شوہر برا نہ مان جائے ۔ میراخیال ہے کہ یہ جملہ شیخ صاحب نے ان کے منہ میں ڈالا ۔ خود شیخ رشید بلاول کے بارے میں کس طرح کے جملے پاس کیا کرتے ۔ یہ انداز توتھڑوں پہ بیٹھنے والوں کو زیب دیتاہے ۔ ان دنوں ویسے بھی سیاست اس حد تک گر چکی ہے کہ ایک دوسرے کے نکاح چیک کیے جا رہے ہیں ۔

میں تحریکِ انصاف سے اس اقدام کی توقع نہیں کر رہا تھا کہ شکست خوردہ مولانا فضل الرحمٰن کو رام کر کے وہ اپنے مقصد کیلئے استعمال کر یں گے ۔یہ جملہ مولانا سے کہلوائیں گے کہ پی ڈی ایم کو کوئی اور کنٹرول کر رہا تھا۔ نہ ہی میں یہ توقع کر رہا تھا کہ پرویز خٹک کے ساتھ تعلقات ٹھیک کیے جائیں گے ۔عمران خان تو شیخ رشید سے ناراض ہوئے تو انہیں الیکشن میں مدد فراہم نہیں کی ۔

مشکلات میں ڈوبی ہوئی تحریکِ انصاف کے لئے کسی رجسٹرڈ سیاسی پارٹی سے اتحا دکرنا لازم تھا۔ مجلس وحدت المسلمین سے اتحاد کیاتو احتجاج کی آواز اٹھی ۔ پھر سنی اتحاد کونسل کو شامل کر لیا گیا تاکہ بیلنس ہو جائے ۔پارٹی کو خواتین اور اقلیتوں کی خصوصی نشستیں ہر قیمت پر چاہئیں ۔لگتا ایسا ہے کہ گوہر علی خان کے پارٹی چیئرمین بننے کے بعد تحریکِ انصاف کے رویے میں بہت تبدیلی آئی ہے ۔

تحریکِ انصاف کو ان مشکلات میں ڈالنے والوں میں سب سے بڑی شخصیت ان کی تھی، جنہوں نے بلّے کا نشان چھینا۔ اب تلملا رہے ہیں کہ تنقید کیوں ہو رہی ہے ۔شعیب بن عزیز کا ایک شعر ان کی خدمت میں عرض ہے۔

اب اداس پھرتے ہوئے سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

منصوبہ سازوں کا خیال یہ تھا کہ تحریکِ انصاف سے بڑے لیڈر چھین لیے جائیں یا گھر بٹھا دیے جائیں ۔ بلے کا نشان چھین لیاجائے، جلسے نہ کرنے دیے جائیں ۔ باقی پولنگ کے دن کی دھاندلی کے بعد تحریکِ انصاف کے ہاتھ صرف آدھ کلو مونگ پھلی ہی رہ جائے گی ۔ صورتِ حال اب یہ ہے کہ تحریکِ انصاف بدستور ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے ۔ عمران خان آزاد ہوتے اور اگر جلسے کرنے کی آزادی ہوتی تو دو تہائی اکثریت سے انہوں نے جیتنا تھا ۔ اس وقت جو بے یقینی ملک میں نظر آرہی ہے ، وہ نہ ہوتی ۔

ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں ، جہاں زندے دہائیاں دے رہے اور مردوں کو انصا ف فراہم کیاجا رہا ہے ۔ منصوبہ ساز بیٹھ کر کیا منصوبے بناتے ہیں اور کون سا پیاز چھیلنے کیلئے میڈیا اور عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں ، ہم نہیں جانتے ۔ تاریخی دھاندلی کا اعتراف کرنے والے کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے جب یہ کہا کہ فوج نے بالکل ٹھیک الیکشن کرائے توآدھا معاملہ اسی وقت واضح ہو گیا۔

پھر لاہور کے ایک پریس پر صحافیوں نے چھاپا مارا ۔ نواز شریف والے حلقے کے بیلٹ پیپر وہاں ابھی چھاپے جا رہے ہیں ۔ ایک لمحے کیلئے مجھے شک ہوا کہ انتخابات میں اپنی تاریخی شکست کے بعد منصوبہ سازوں کامنصوبہ شاید یہ ہے کہ اب ساری عوامی تنقید کا ہدف میاں محمد نواز شریف کو بنا دیا جائے ۔ مرضی کے نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے تو الیکشن نتائج کو متنازع کر دیا جائے ۔ اشارہ بھی دیاگیا تھا کہ ایک قومی حکومت بنانے کا وہ سوچ رہے ہیں ۔ مسئلہ اب یہ ہے کہ قومی حکومت کا تجربہ پی ڈی ایم کی صورت میں پہلے ہی ناکام ہو چکا۔ تحریکِ انصاف ایسی کسی حکومت میں شامل نہ ہو گی ۔ پی ٹی آئی کے بغیر کسی پی ڈی ایم نما قومی حکومت کی کوئی قبولیت نہ ہو گی ۔

عمران خان کے بارے میں منصوبہ سازوں کے منصوبے کامیاب نہ ہو سکے ۔ انہوں نے اس کے اسکینڈل اچھالے ، آڈیوز ریکار ڈکیں ، بیوی کے سابق شوہر کو میدان میں اتارا۔ انتخابات میں تحریکِ انصاف کو تحلیل کرنے کی کوشش کی ، نہ کر سکے ۔

صورتِ حال اب یہ ہے کہ اکثریت کسی کے پاس نہیں ۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ میں مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں ،نہ سیاسی پارٹیوں کو کچھ سمجھ آرہا ہے اور نہ پشت پناہوں کو۔

تدبیر کندبندہ ، تقدیر زند خندہ

اس کی نسبت کتنا اچھا ہوتا کہ عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے دیے جاتے، پھرغیر جانبدار الیکشن ہو جاتے ۔ تنقید سے بھی بچ جاتے اور دردسری سے بھی۔

اورآخر میں نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے ریٹرننگ افسران کی ٹرولنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے ۔گزارش یہ ہے :

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو

تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو

تازہ ترین