• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

21 فروری کی شام تھی۔ محترمہ یاسمین حمید کا انٹرویو کرنا تھا۔ لاہور کی نہر پہ جیل روڈ کے انڈر پاس سے گزر رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ تنویر جہاں کا نام تھا۔ فون اٹھایا۔ مختصر پیغام تھا ’نذیر ناجی نہیں رہے‘۔ گویا کسی نے بدن کے حساس حصے پر نشتر چبھو دیا ہے۔ آنسو میری آنکھوں میں کیا سلسلہ وار آئے۔ ایبٹ روڈ پہنچا تو ایک عزیز نے کہا کہ غالباً آپ اس خبر کے بعد آج کا پروگرام نہیں کر سکیں گے۔ ایسے تو نہیں ہوتا۔ ہم پیشہ ور لوگ ہیں۔ صحافی کو ماں کی موت پر چھٹی نہیں ملتی۔ خود مر جائے تو معذرت۔ کام مکمل کر کے نکلا۔ نہر کی دو رویہ سڑک پر 312 کینال روڈ تک جانا تھا۔ دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ 1978ء کا سیاہ پوش برس تھا۔ روزنامہ ’مساوات ‘بند ہو چکا تھا۔ ایس جی ایم بدرالدین قید تھے۔ آپ کا نیازمند روزنامہ ’حیات‘ پڑھتا تھا۔ روزنامہ حیات کے مدیر نذیر ناجی کو ایک برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس فیصلے پر اخبار کا اداریہ آپ کا نیازمند آج بھی آنکھ بند کر کے پڑھ سکتا ہے۔ گمان تھا کہ نذیر ناجی کی وفات پر اردو صحافت کچھ ایسا ہی ردعمل دے گی جو اگست 1963ء میں علامہ عنایت اللہ مشرقی کی رحلت اور ستمبر 1976 میں چیئرمین ماؤ کے انتقال پر سامنے آیا تھا۔ اخبارات کی فائل ہم نے دیکھ رکھی ہے۔ ایسا نہیں ہوا۔ تین اخبارات میں خبر پڑھی اور معلوم ہوا کہ اردو اخبار میں خبر لکھنے والا صحافی باقی نہیں رہا۔ نامکمل معلومات اور سپاٹ بیان۔ نیوز ایجنسی نے جو خبر بھیجی، اسے دھانس دیا ہے۔ نذیر ناجی ہمارے اخبار روزنامہ ’جنگ ‘میں 27 برس تک ’سویرے سویرے‘ لکھتے رہے۔ ان کے ارتحال کی خبر کسی نوآموز صحافی کے سپرد تو نہیں کرنا تھی۔ عارف وقار یا اسلم ملک سے پوچھ لیا ہوتا۔ 1953ء کے لاہور فسادات میں قید ہونے والا نذیر ناجی دس برس کا بچہ تو نہیں ہو سکتا تھا۔ غریب ماں باپ کا بیٹا صحیح معنی میں خود تراشیدہ انسان تھا۔ 1967ء میں میر خلیل الرحمن نے 29 سالہ نذیر ناجی کو بہت سوچ سمجھ کے اخبارِ جہاں کا مدیر مقرر کیا تھا۔ کوثر نیازی نے ’دیدہ ور‘ لکھنے کیلئے نذیر ناجی کو انتخاب کیا تھا۔ اس زمانے کے اردو اخبار میں انگریزی صحافت کی طرز پر ایک ہی کالم چھپتا تھا۔ جیسے ’انقلاب‘ میں عبدالمجید سالک ’افکار و حوادث‘ لکھتے تھے۔ چراغ حسن حسرت ’امروز ‘ میں سند باد جہازی کے نقاب میں درشن دیتے تھے۔ منو بھائی کے کالم بھلے مجھے استاذی شاہد ملک کی طرح نوک زباں نہ ہوں مگر 1973ء یا 74ء کے کالم دہرا تو سکتا ہوں۔ مرحوم ضیاالحق کے عہد زیاں میں خبر پر پہرے لگ گئے تو باخبر صحافیوں نے کالم کی راہ نکالی۔ مجیب الرحمن شامی نے ’جلسہ عام‘ منعقد کیا۔ عبدالقادر حسن ’غیر سیاسی باتیں‘ کہتے تھے۔ نذیر ناجی ’سویرے سویرے‘ دستک دیتے تھے۔ یہ صحافت میں لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن کی وردی پوش رعونت کا قلم بر گوش جواب تھا۔ انتظار حسین اور عطاالحق قاسمی کے کالم ایک اور دنیا کی کہانی تھی۔ ہم پرانی دنیا کے لوگ ہیں۔ نذیر ناجی داستاں ہو گئے۔ آئیے آج کی دنیا سے بات کرتے ہیں۔

2024ء ہماری تاریخ میں ایک نیا صفحہ لیے نمودار ہوا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں 1970ء کا اعادہ ہے۔ تب قیام پاکستان کے ساتھ جنم لینے والی نسل نے ایک نیا ورق الٹا تھا۔ ہم نے اس انقلاب کی چھائوں میں آنکھ کھولی۔ بھٹو صاحب اور شیخ مجیب الرحمن گویا عبدالرب نشتر اور حسین شہید سہروردی کی سیاست کا نیا روپ تھے۔ ہم نے اس انقلاب کو سمجھنے اور قبول کرنے میں تاخیر کر دی۔ آئیے تسلیم کریں کہ آج کا پاکستان ایک نئی نسل کی امانت ہے۔ آج ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت پر 45 برس گزر گئے۔بھٹو صاحب کے عشاق اب ستر برس کی حد پار کر چکے۔ سندھ کا قصہ الگ ہے۔ اس کے ردعمل میں نواز شریف سامنے آئے تھے۔ اب ان کے چاہنے والے بھی ساٹھ کے پیٹے میں ہیں۔ ہم پاکستان میں پیدا ہونے والی دوسری نسل تھے۔ غالب نے سرسید احمد خان کی تصنیف ’آثار الصنادید‘ کی تقریظ لکھی تھی۔ ہر کس کہ شد صاحب نظر، دِینِ بزرگاں خوش نکرد۔

ہم نے اپنے بزرگوں سے بغاوت کی۔ اب اپنے بچوں سے مکالمے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔ ہماری خبر، اطلاع اور تجزیے کے ذرائع اور تھے۔ اب ہمارے بچے بڑے ہو چکے۔ ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ ان کی اپنی دنیا ہے۔ ہمارے حوالے، اسناد اور استعارے ان کے لیے بے معنی ہیں۔ ان کی تربیت بفضل خدا ہماری ہی نسل نے کی ہے۔ آفرین ہے ہم پر اور ہماری تدریس پر۔ دو سیاروں کے بیچ جینے والی ہماری نسلِ عبور کا نوحہ کوئی اور لکھے گا۔ ہماری پیڑھی کا جغرافیہ مجہول، ہماری تاریخ منسوخ اور فہم متروک قرار پائے۔ اب آنے والوں سے بات کرنی چاہیے۔ سیاست میں 1937ء آتا ہے۔ پھر کوئی مخروطہ پسند محمد علی جناح کو روک نہیں سکتا۔ 1967 ء میں کوئی دولتانہ بھٹو صاحب کے مقابل نہیں ٹھہر سکا۔ عمران خان صاحب کی سیاست ہمارے تاریخی فہم سے بالا ہو سکتی ہے، نوجوان نسل کو سمجھ آتی ہے۔ ہمیں ایک قدم آگے بڑھانا ہو گا۔ ہم 8 اگست 1977ء کی طرف پلٹنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہماری نسل کو یاد ہے ، تب ذوالفقار علی بھٹو لاہور کے ایئرپورٹ پر رونق افروز ہوئے تھے اور مرحوم شاہ احمد نورانی کی پگڑی روندی گئی تھی۔ اس اختلاف سے جمہوریت نہیں، فیض علی چشتی اور ارباب جہانزیب کی رعونت برآمد ہوتی ہے۔ ہم نے یہ سودا کر رکھا ہے اور زیاں میں ہیں۔ سیاست قوم کے سود و زیاں کا کھیل ہے۔ ہم ہارا ہوا لشکر ہیں۔ ہمیں ہتھیار پھینکنے کا سلیقہ تو سیکھ لینا چاہیے۔ نذیر ناجی کی ایک بہت نایاب خوبی یہ تھی کہ وقت کے دریا کی لہروں کو پڑھ سکتے تھے۔ وہ اگر ہمارے درمیان موجود ہوتے تو انہوں نے خدائے سخن کو یاد کیا ہوتا۔

کیا جانوں چشم تر سے ادھر دل پہ کیا ہوا

کس کو خبر ہے میرؔ سمندر کے پار کی

تازہ ترین