ارشادِ ربانی ہے: ’’حٰم، اس روشن کتاب کی قسم، بے شک، ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔ اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ ہماری بارگاہ کے حکم سے، بے شک، ہم ہی بھیجنے والے ہیں۔ (یہ) آپ کے رب کی جانب سے رحمت ہے، بے شک وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے (اس کا) پروردگار ہے، بشرط یہ کہ تم یقین رکھنے والے ہو ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگی دیتا اور موت دیتا ہے (وہ) تمہارا (بھی) رب ہے اور تمہارے آباؤ اجداد کا (بھی) رب ہے‘‘۔
حضورپُرنور ﷺ نے فرمایا شعبان شھری و رمضان شھر اللہ (شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے) مزید فرمایا کہ جو شعبان میں اچھی تیاری کرے گا، اس کا رمضان اچھا گزرے گا اور وہ ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں سے لطف اندوز اور بہرہ مند ہوگا۔ شعبان المعظم بابرکت و باسعادت اور حرمت و تعظیم والا مہینہ ہے، لیکن اس مہینے کو بطور خاص کچھ فضیلتیں، امتیازات اور شرف عطا کئے گئے، یہ مہینہ ’’شہر التوبہ‘‘ بھی کہلاتا ہے، اس لئے کہ توبہ کی قبولیت اس ماہ میں بڑھ جاتی ہے۔ اس ماہ میں مسلمانوں پر برکتوں کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
اس لئے یہ ماہ مبارک اس کا حقدار ہے کہ دیگر مہینوں سے بڑھ کر اس میں اللہ کی اطاعت و عبادت اختیار کی جائے۔ بزرگانِ دین نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنی جان کو اس مہینے میں ریاضت و محنت پر تیار کر لیں گے، وہ ماہ رمضان المبارک کی جملہ برکتوں اور سعادتوں کو کامیابی کے ساتھ حاصل کریں گے۔ اس بناء پر حضور ﷺ ماہ رمضان کے بعد سال کے بارہ مہینوں میں سب سے زیادہ روزے اس ماہ رکھتے تھے۔ اس ماہ کی ایک امتیازی خصوصیت پندرہویں شعبان المعظم کی رات ہے۔ اسے اللہ نے ’’لیلۂ مبارکہ‘‘ ’’برکت والی رات‘‘ کہا ہے۔
علماء، مشائخ، مفسرین کی اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ شب قدر کے بعد سال کے بارہ مہینوں میں سب سے زیادہ افضل شب برأت ہے۔ ارشاد فرمایا :’’اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے‘‘۔ یعنی تمام حکمت والے، فیصلہ کن، نافذ العمل ہونے والے امور کی تنفیذ کا فیصلہ اس رات کیا جاتا ہے۔ حضرت عطاء بن یسار ؒ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’جب پندرہویں شعبان کی رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ ملک الموت کو اگلے سال کے لئے موت وحیات کے امور نفاذ و اجراء کے لئے سپرد فرما دیتا ہے‘‘۔
حضور ﷺ نے فرمایا ’’ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ پندرہویں شعبان المعظم کی رات بھی اپنے ظلم میں مصروف ہوتے ہیں یا ظلم و ستم ڈھانے کے لئے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کا نام مرنے والوں کی فہرست میں آ چکا ہوتا ہے‘‘۔غرض افراد ایسے منصوبوں میں مصروف ہوتے ہیں جن کے نتائج سالوں بعد ظاہر ہوتے ہیں، حالانکہ اس اگلے سال میں ان کی موت لکھ دی جاتی ہے۔ یعنی ہر امر الہٰی نفاذ کے لئے سپرد کر دیا جاتا ہے۔
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:شعبان کوشعبان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ماہ رمضان کے لیے اس سے خیرکثیر پھوٹ کرنکلتی ہیں۔ امّ المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپﷺ کامحبوب ترین مہینہ شعبان کا تھا۔آپﷺ اس ماہ مبارک کے روزوں کو رمضان سے ملادیا کرتے تھے۔ آپ ﷺسے نفل روزوں سے متعلق دریافت کیاگیاتورحمت دو عالم ﷺ نے فرمایا: رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کے روزےرکھنا۔شعبان محبوب رب جلیل کامہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کی ایک شب کو’’شب برأت‘‘ قراردیا اور گناہوں سے چھٹکارے کی رات کے ساتھ اس شب کو نزول عطائے رب بھی بنا دیا۔
’’شعبان المعظّم‘‘کی پندرہویں شب کو ’’شب برأت‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ بہت ہی بابرکت،قدرو منزلت اور فضیلت والی رات ہے۔ طبرانی اور ابن حبّان نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، میرے پاس جبرائیلؑ آئے اور کہا کہ یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے، اس میں اللہ تعالیٰ جہنم سے اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بال ہیں،مگراللہ تعالیٰ مشرک،عداوت والے، رشتہ توڑنے والے، والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب پینے والے کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا۔
حضرت انسؓ کی روایت میں مذکور ہے کہ شعبان کے دنوں میں روزہ رکھنے کا ثواب یہ ہے کہ آتش دوزخ اس کے بدن پر حرام ہوتی ہے۔ آج وہ مبارک شب ہے، جسے شب برأت اور شبِ رحمت ونصرت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جس کے متعلق قرآن حکیم اعلان فرماتا ہے: اس روشن کتاب کی قسم،ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا۔ ہم ڈر سنانے والے ہیں، اس میں بانٹ دیاجاتاہےہر حکمت والا کام۔(سورۂ دخان)
بعض مفسرین کرام کے نزدیک لیلۂ مبارکہ سے شب برأت مراد ہے۔ جس میں خدا وند ذوالجلال کی مخصوص رحمتوں اور برکتو ں کا نزول ہوتا ہے۔ رحمت کے درواز ے کھلتے ہیں۔ انعام و اکرام کی بارش ہوتی ہے۔ تمام وہ امور جو آئندہ سال ہونے والے ہیں، ہر محکمے سے تعلق رکھنے والے ملائکہ کو تفویض کردیے جاتے ہیں۔ اس شب کی برکات میں سب سے نفیس ترین برکت ربّ تعالیٰ کا جمال ہے جو عرش سے تحت الثریٰ تک اپنے عموم فیض سے ہر ذرے کو نوازتا ہے، ربانی تجلیات اور ایزدی فیوض و برکات متوجہ ہوتی ہیں۔ انعام و اکرام کی بارش ہوتی ہے اور وہ پاک بے نیاز آسمان دنیا پرنزول فرماتاہے اور بنو کلب کی بکریو ں کے بالوں کی تعداد سے زائد افرادِ اُمت کی بخشش ہوتی ہے۔(ابن ماجہ)
اِسی شب حضرت جبرائیلؑ بحکم رب جنت میں جاتے ہیں اور رب العزت کا یہ حکم سناتے ہیں کہ جنت کو آراستہ کردیا جائے اور غلامان مصطفیٰ ﷺ کے لیے اسے خوب سجایا جائے، کیوں کہ اس مقدس شب میں اللہ تعا لیٰ آسمان کے ستاروں کے شمار اور دنیا کے روزو شب کی مقدار درختوں کے پتوں کی گنتی اور پہاڑوں کے وزن کے برابر اور ریت کے ذروں کے موافق بندوں کودوزخ سے آزاد فرمائے گا۔(ماثبت بالسنہ)
اس شب اُمت کی مغفرت ہوتی ہے، سائلوں کو عطا کیا جاتا ہے،گناہ معاف ہوتے ہیں، توبہ قبول ہوتی ہے اور رب العزّت اپنی مخلوق کی مغفرت فرمادیتا ہے اور ان کے درجے بلند کرتا ہے، سب کو اپنی آغوش رحمت میں لیتا ہے۔
اللہ کا مقرب بننے کے لیے ضروری ہے کہ بندوں کے حقوق اداکیے جائیں ۔چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے بصدق دل توبہ کی جائے، ماں باپ اگرناراض ہوں توان کے قدموں میں پڑکر معافی مانگی جائے۔ مسلمان آپس میں گلے ملیں اور دنیوی رنجشوں اور عداوتوں کو ختم کریں، تاکہ اس شب کی برکات وحسنات سے مالامال ہوں۔