محمد عبدالمتعالی نعمان
’’شعبان المعظّم‘‘ اسلامی سال کا آٹھواں قمری مہینہ ہے،یہ رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کے بابرکت مہینے ’’رمضان المبارک‘‘ کا دیباچہ، سن ہجری کا اہم مرحلہ اور نہایت عظمت اور فضیلت کا حامل ہے۔ خاتم الانبیاء، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اس مہینے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے، اس سلسلے میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’شعبان شہری‘‘ شعبان میرا مہینہ ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ماہِ رجب کے آغاز پر آپﷺ یہ دعا فرماتے تھے: ’’اللّٰھمّ بارک لنا فی رجب و شعبان و بلّغنا رمضان۔‘‘ ’’اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمارے لیے برکت پیدا فرما اور (خیر و عافیت کے ساتھ) ہمیں رمضان تک پہنچا۔‘‘(ابن عساکر)
’’شعبان‘‘ کی ایک وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ ’’شعب‘‘ سے مشتق ہے، جو اژدہام اور اجتماع کے معنیٰ میں آتا ہے، اس بابرکت مہینے میں چوں کہ خیر کثیر کا اجتماع ہوتا ہے، اس لیے اسے شعبان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، ایک قول یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’شعب‘‘ ظہر یعنی پُشت یا پیچھے یا درمیان میں ہونے کے معنیٰ میں ہے، چوں کہ یہ مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان میں ہے، لہٰذا اسے ’’شعبان‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شعبان کی عظمت اور بزرگی دوسرے مہینوں پر اسی طرح ہے، جس طرح مجھے تمام انبیاءؑ پر عظمت اور فضیلت حاصل ہے۔
اس ماہِ مبارک کی پندرہویں شب کو ’’شبِ برأت‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔’’شب برأت‘‘ کے کئی نام ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں۔ (1)لیلۃ الرحمۃ:اللہ تعالیٰ کی رحمتِ خاصہ کے نزول کی رات۔(2)لیلۃ المبارکۃ:برکتوں والی رات۔(3)لیلۃ البرأ ۃ:جہنم سے نجات اور بری ہونے والی رات۔ (4)لیلۃ الصّک: دستاویز والی رات۔جب کہ عام طور پر اسے ’’شب برأت‘‘کہا جاتا ہے۔ ’’شب‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ رات کے ہیں اور برأت عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنیٰ بری ہونے اور نجات پانے کے ہیں۔ اس لیے اسے شب برأت کہا جاتا ہے ۔ چوںکہ اس مقدس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد بندگان خدا جہنم سے نجات پاتے ہیں۔ اس لیے اسے ’’شب برأت‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
شب برأت کی فضیلت و اہمیت کے حوالے سے جلیل القدر صحابیؓ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ عزو جل کی جانب سے (ایک پکارنے والا) پکارتا ہے۔ کیا کوئی مغفرت کا طلب گار ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں؟ کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کر دوں؟اس وقت پروردگار عالم سے جو مانگتا ہے، اسے ملتا ہے، سوائے بدکار عورت اور مشرک کے۔‘‘ (بیہقی/شعب الایمان)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ سوائے مشرک اور کینہ ور کے سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ (مجمع الزوائد)حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’جب شعبان کی پندرہویں شب (شب برأت) ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر نظر ڈال کر اہل ایمان کی مغفرت فرما دیتا ہے، کافروں کو مہلت دیتا ہے، اور کینہ وروں کو ان کے کینے کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے تاوقت یہ کہ وہ توبہ کر کے ،کینہ وری چھوڑ دیں‘‘۔(بیہقی /شعب الایمان )
مختلف روایات میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ بے شمار بدنصیب افراد ایسے ہیں کہ وہ اس بابرکت رات کی عظمت و فضیلت اور قدر و منزلت سے دور رہتے اور اللہ عزو جل کی بخشش ورحمت سے محروم رہتے ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت نہیں ہوتی۔ وہ بدنصیب افراد یہ ہیں:
٭مشرک ٭جادوگر٭کاہن اور نجومی٭ناجائز بغض اور کینہ رکھنے والا ٭جلاد ٭ظلم سے ناجائز ٹیکس وصول کرنے والا٭جوا کھیلنے والا ٭گانے بجانے والا اور اس میں مصروف رہنے والا٭ٹخنوں سے نیچے شلوار ، پاجامہ تہہ بند وغیرہ رکھنے والا٭زانی مرد و عورت٭والدین کا نافرمان٭شراب پینے والا اور اس کا عادی ٭رشتے داروں اور اپنے مسلمان بھائیوں سے ناحق قطع تعلق کرنے والا۔
علماء و محدثین کے مطابق شب برأت کی فضیلت لیلۃ القدر کے بعد ہے،یعنی شب قدر سے کم ہے، تاہم اس کی فضیلت اور قدرو منزلت سے انکار کرنا کسی بھی طرح درست نہیں۔ حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں:’’لیلۃ القدرکے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے زیادہ کوئی رات افضل نہیں۔ ‘‘
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری پیشی سے حکم ہو کر طے کیا جاتا ہے۔(سورۂ دخان) یعنی اس رات پورے سال کا حال قلم بند ہوتا ہے، رزق، بیماری،تن درستی، فراخی،راحت ، تکلیف ، حتیٰ کہ ہر وہ شخص جو اس سال پیدا ہونے والا یا مرنے والا ہو، اس کا مقررہ وقت بھی اسی شب لکھ دیا جاتا ہے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (اے عائشہ ؓ) کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی شعبان کی (پندرہویں شب) میں کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ (اس شب) کیا ہوتا ہے؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اس شب میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے بھی انسان پیدا ہونے والے ہیں،ان سب کے متعلق لکھ دیا جاتا ہے اور جتنے اس سال فوت ہونے والے ہیں،ان تمام کے متعلق بھی لکھ دیا جاتا ہے،اس شب تمام بندوں کے(سارے سال کے) اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات لوگوں کی مقررہ روزی اترتی ہے۔ (مشکوٰۃ)
حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک فہرست ملک الموت کو دے دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ جن جن لوگوں کا نام اس فہرست میں درج ہے، ان کی روحوں کو قبض کرنا،(اس وقت حال یہ ہوتا ہے کہ )کوئی بندہ تو باغ میں پودا لگا رہا ہوتا ہے، کوئی شادی بیاہ میں مصروف ہوتا ہے،کوئی مکان کی تعمیر میں مصروف ہوتا ہے، حالانکہ ان کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ’’اس کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:٭بہت سے لوگوں کے کفن تیار ہو چکے ہیں، مگر وہ ابھی تک بازاروں میں خریدو فروخت میں مصروف اور اپنی موت سے غافل ہیں۔٭بہت سے لوگوں کی قبریں کھد کر تیار ہو چکی ہیں، مگر ان میں دفن ہونے والے غفلت سے خوشیاں مناتے پھر رہے ہیں۔٭بہت سے لوگ ہنستے اور خوشیاں مناتے پھرتے ہیں، حالانکہ وہ بہت جلد ہلاک ہونے والے ہیں۔ ( غنیۃ الطالبین)
اس بابرکت رات کی مقدس گھڑیوں میں جو چودہ شعبان کے سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی اور پندرہ شعبان کی صبح صادق ہونے تک رہتی ہے۔بارگاہِ رب العزت کی رحمت و مغفرت کا ابرکرم خوب جم کر برستا ہے۔امّ المومین حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بلا شبہ اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر لوگوں کی مغفرت فرما دیتا ہے۔(ترمذی)
قبیلہ بنو کلب کو خاص شہرت حاصل تھی۔ اس قبیلے کے پاس سب سے زیادہ بکریاں تھیں،بعض محدثین اور سیرت نگاروں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ بنو کلب کی بکریاں بالوں کی کثرت کے حوالے سے خاص طور پر مشہور تھیں، ایک بکری کے جسم پر بالوں کا شمار جس طرح ممکن نہیں، اسی طرح اللہ رب العزت اس مقدس شب بے شمار بندوں کی مغفرت فرما کر انہیں بخشش اور جہنم سے نجات کا پروانہ عطا فرماتا ہے۔
امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس مقدس شب یہ دعا فرماتے تھے:اے اللہ ! میں تیرے عفو کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیری سزا سے اور تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے غصے اور ناراضی سے اور پناہ چاہتا ہوں تیری سختیوں سے، یا اللہ، میں آپ کی تعریف شمار نہیں کر سکتا، آپ کی ذات ایسی ہی بلند وبالا ہے، جیسے آپ نے خود فرمایا۔