• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قراۃالعین فاروق، حیدر آباد

’’ہیلو باجی! آج آپ نے دال کے ساتھ شامی کباب بھی بنانے کا کہا تھا، مگر سبز مسالا… میرا مطلب… دھنیا، پودینا اور سبز مرچیں تو ختم ہو گئی ہیں۔‘‘ خانساماں نے صنوبر کو فون پر بتایا۔ ’’اچّھا! مَیں شوٹنگ سے واپسی پر لیتی آؤں گی۔ تم ایسا کرو کہ دال کے ساتھ چکن کا سالن بنا لو اور کباب کل بنا لینا… اور تو کچھ نہیں چاہیے؟‘‘ صنوبر نے پوچھا۔ ’’نہیں باجی، اور کسی چیز کی ضرورت نہیں۔‘‘ 

یہ کہہ کر خانساماں نے فون رکھ دیا، جب کہ دوسری جانب صنوبر شوٹنگ شروع ہونے سے پہلے اسٹوڈیو میں بنے کچن میں کوکنگ سکھانے کی تیاری کرنے لگی۔ آج اُس نے لائیو ٹی وی شو میں کوفتے اور دیگی بریانی بنانا سکھانی تھی۔ شو شروع ہوا اور اُس نے ہمیشہ کی طرح بڑی محنت اور دل جمعی سے ناظرین کو دونوں ڈِشز بنانا سکھائیں۔ اس دوران کچن اُس کے ہاتھ کے بنے لذیذ کھانوں کی خوش بُو سے مہک اُٹھا اور شو ختم ہونے کے بعد جب اسٹوڈیو میں موجود اسٹاف نے وہ ڈِشز کھائیں، تو اُسے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

’’میڈم !آپ کے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے۔ آپ کے شوہر اور بچّے تو بہت خوش قسمت ہیں، جو آپ کے ہاتھ کے بنے مزے دار کھانے کھاتے ہیں۔‘‘ ایک اسٹاف ممبر نے صنوبر سے کہا۔ مگر وہ ان تعریفی کلمات پر صرف ’’ہونہہ‘‘ کہہ کر جلداز جلد گھر پہنچنے کے لیے اسٹوڈیو سے نکل آئی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اُس نے ڈرائیور کو کسی سبزی کے ٹھیلے کے پاس رُکنے کا کہا۔ سڑک پر ٹریفک کا رش زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈرائیور بہت آہستگی سے گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی کہ اچانک اُسے اپنے اسٹاف ممبر کا جملہ یاد آگیا کہ ’’ میڈم !آپ کے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے… ‘‘ اور پھر دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ ’’میرے ہاتھ کا ذائقہ دوسروں کو تو بہت اچّھا لگتا ہے، مگر میرے شوہر اور بچّوں کو نہیں۔ 

اگر اُنہیں بھی میرے ہاتھ کے بنے کھانے پسند ہوتے، تو آج مَیں گھر بیٹھ کر آرام سے اپنی فیملی کے لیے کھانے پکا رہی ہوتی اور غیروں کی بہ جائے اپنے شوہر اور بچّوں سے داد وصول کر رہی ہوتی۔ مَیں چاہے کتنا ہی اچّھا کھانا کیوں نہ بنالوں، وہ اُس میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور نکال لیتے ہیں۔ مَیں کتنی چاہت، مان اور پیار سے سب کے لیے کھانا پکاتی تھی، مگراِن بے قدرے لوگوںنے قدر ہی نہ کی، تو مَیں نے دل پہ پتّھر رکھ کر گھر میں خانساماں رکھنے کی ہامی بھر لی۔ عامر کو تو ہوٹلوں کے کھانوں کا چسکا ہے، جب کہ بیٹے چھوٹے تھے، تو میرے ہاتھ کے بنے کھانے کھاتے تھے، مگر بڑے ہونے پر یہ بھی باپ کی طرح بازاری کھانوں کے شوقین ہوگئے۔‘‘ ’’باجی! وہ سامنے سبزی کا ٹھیلا کھڑا ہے۔ بتائیں، کیا لانا ہے؟‘‘ ڈرائیور کی آواز سُن کر صنوبر خیالات کی دُنیا سے باہر آ گئی اور اُسے پرس سے پیسے نکال کر سبز مسالا لانے کو کہا۔

صنوبر ابتدا ہی سے کوکنگ کی شوقین تھی ۔ اُس نے شادی سے پہلے ہی اپنی امّی اور دادی سے طرح طرح کے پکوان بنانا سیکھ لیے تھے اور پھر بیٹی کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے والدین نے اُسے کوکنگ کے مختلف کورسز بھی کروائے تھے۔ پھر وہ خود بھی نِت نئی تراکیب آزمانے لگی اور جلد ہی اُس کی کوکنگ عزیز و اقارب میں مشہور ہو گئی۔ امّی اُس سے اکثر کہا کرتی تھیں کہ’’ لڑکیوں کو کھانا پکانے کا ہُنر آنا چاہیے۔ ایسی ہی لڑکیاں اپنے شوہر کے دل پر راج کرتی ہیں۔‘‘ مگر اس معاملے میں صنوبر بدقسمت ہی رہی، کیوں کہ عامر کو اس کے ہاتھ کے بنے کھانے پسند ہی نہیں آتے تھے۔ 

گرچہ عامرکوشادی سے قبل ہی صنوبر کے کوکنگ کے شوق کا علم تھا، لیکن اُسے اپنی ہونے والی شریکِ حیات کے ہاتھ کی ڈِشز کھانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ دراصل، صنوبر کے سب سُسرال والے گاؤں میں رہتے تھے اور صرف عامر ہی شہر میں پلا بڑھا تھا اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ مُلک چلا گیا تھا۔ یوں گھر سے دُور رہنے کی وجہ سے اُسے بازاری کھانوں کی لت سی لگ گئی تھی۔ وہ کھانوں کے ذائقے کے معاملے میں بہت ’’چُوزی‘‘ تھا اور اسے کم ہی لوگوں کے ہاتھ کے بنے کھانے پسند آتے۔ البتہ جس ہوٹل کا کھانا پسند آ جاتا، توپھر بار بار اُسی ہوٹل میں جاتا۔

برسوں سے بازاری کھانے کھانے کے باعث عامر کی طبیعت ناساز رہنے لگی، تو ڈاکٹر نے اُسے سختی سے ہوٹلنگ سے منع کر دیا۔ گرچہ صنوبر بھی اکثر اُسے ہوٹل کے کھانے کھانے سے روکتی تھی، مگر وہ اس کی باتوں پر کم ہی کان دھرتا تھا۔ بہرحال، ڈاکٹر کی ہدایت کے بعد صنوبر نے سوچا کہ اب اُس کا شوہر اور بچّے اس کے ہاتھ کے بنے کھانے ہی کھائیں گے، مگر عامر نے اس کی سوچ کے برعکس خانساماں رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ 

صنوبر نے احتجاجاً عامر سے پوچھا بھی کہ ’’آخر میرے ہاتھ کے بنے کھانوں پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘تو اس پر عامر کا جواب تھا کہ ’’ مُجھے تمہارے ہاتھ کا ذائقہ زیادہ پسند نہیں۔ مانا کہ تم بریانی، مچھلی کا سالن، حلیم اور کچھ دوسری ڈِشز بہت اچھی بناتی ہو، لیکن مَیں صرف تمہارے ہاتھ کے بنے کھانوں پر اکتفا نہیں کر سکتا۔اور… تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ مَیں نے تمہاری سہولت کی خاطر ایک بہترین خانساماں کا انتظام کر لیا ہے۔ اب تم بھی آرام سے بیٹھ کرپکے پکائے کھانے کھانا۔‘‘

خانساماں کے آجانے کے بعد صنوبر دن رات کڑھتی رہتی، کیوں کہ پہلے وہ تھوڑے بہت کھانے پکا کر پھر بھی اپنے شوق کی تسکین کرلیتی تھی، لیکن اب وہ سرگرمی بھی ختم ہو گئی۔ چناں چہ اُس نے گھر فارغ بیٹھنے کی بہ جائے کوئی مصروفیت تلاش کرنا شروع کر دی۔ ایک قریبی کوکنگ سینٹر میں ٹیچر کے طور پر اپنی خدمات پیش کرنا چاہیں، مگر وہاں کوئی اسامی خالی نہیں تھی۔ کسی نے اُسے گھر ہی میں کوکنگ سکھانے کا مشورہ دیا۔ 

کسی نے صلاح دی کہ گھر میں کھانا پکا کر اسے کاروباری مراکز اور دفاتر میں سپلائی شروع کر دے۔ ابھی وہ اس ضمن میں عامر سے بات کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اُس کی ایک گہری سہیلی کا فون آیا اور اُس نے بتایا کہ ’’ایک ٹی وی چینل پر شیف کی اسامی خالی ہے۔ ایک واقفیت رکھنے والی خاتون نے مُجھ سے کسی اچھی سی کُک کے بارے میں پوچھا، تو میرے ذہن میں سب سے پہلے تمہارا نام آیا۔‘‘

ٹی وی چینل کا نام سُن کر پہلے تو صنوبر نے انکار کردیا، مگر اُس کی سہیلی مسلسل اُسے قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ ’’تمہارے ہاتھ میں اتنا ذائقہ ہے۔ تم ڈھیر ساری ریسیپیز بھی جانتی ہو۔ تم یوں گھر میں بے کار بیٹھ کر اپنا وقت اور صلاحیتیں ضایع کر رہی ہو۔ تم سے جب بھی ملو، تو تمہارا چہرہ اُترا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ابھی وقت ہے دُنیا کو اپنی کوکنگ اِسکلز دکھانے کا۔ 

یہ موقع تمہیں بار بار نہیں ملے گا۔ میرا مشورہ ہے کہ تم آڈیشن دینے ضرور جائو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تمہیں ہی سلیکٹ کرلیں اور تم ایک مشہور شیف بن جاؤ۔‘‘صنوبر نے اس سلسلے میں عامر سے بات کی، تو اُس نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا اور خوش قسمتی سے اُسے شیف کے طور پر منتخب بھی کر لیا گیا۔ یوں صنوبر نے ٹی وی چینل پر کوکنگ سکھانا شروع کر دی۔ شروع شروع میں اسے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر جلد ہی اُس نےاپنا نام و مقام بنالیا۔

ایک دن عامر کے بے حد اصرار پر صنوبر، فیملی کے ساتھ ڈنر کے لیے اُس کے پسندیدہ ریسٹورنٹ گئی۔ تب وہ ایک سلیبریٹی بن چُکی تھی۔ اُسےریسٹورنٹ میں ایک خاتون نے پہچان لیا اور پاس آکر کہا کہ ’’آپ صنوبر ہیں ناں، جو ٹی وی پر کھانا پکانا سکھاتی ہیں۔‘‘ ’’جی،مَیں صنوبر ہی ہوں۔‘‘ اُس نے جواب دیا۔ ’’آپ کی بہت سی ریسیپیزٹرائی کرتی ہوں، جو نہ صرف مُجھے بلکہ سارے گھر والوں کو بہت پسند آتی ہیں۔ 

مُجھے آپ کے سکھانے، سمجھانے کا انداز بھی بہت اچّھا لگتا ہے۔ آپ بڑی آسانی سے مشکل سے مشکل ڈِش بنانا سکھا دیتی ہیں۔‘‘ پھر وہ کچھ توقّف کے بعد بھنویں چڑھا کر بولیں، ’’ مگر… مگر مُجھے تھوڑی سی حیرت بھی ہو رہی ہے کہ آپ بھی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے آئی ہیں، جب کہ آپ تو خود ایک بہترین شیف ہیں۔‘‘جواباً صنوبر نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بس اتنا کہا ’’کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کو بھی تو جی چاہتا ہے۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید