• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترمہ مریم نواز صاحبہ وزیرِ اعلیٰ منتخب ہو گئیں۔ یہ ان کی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ گو کہ ان کا اصل خواب ایک ایسا طاقتور وزیرِ اعظم بننا ہے ، جو اس ملک کے تمام اداروں پہ حقیقی راج کرتا ہو ۔ گو کہنا مریم صاحبہ کا یہ ہے کہ انکے دل میں انتقام کا کوئی جذبہ نہیں ۔ دوسری طرف آثار مگر جنگ و جدل ہی کے ہیں ۔سوموار کے روز پنجاب اسمبلی میں اپنے کندھے سے عظمیٰ کاردار کا ہاتھ جھٹکنے کی ان کی وڈیو وائرل ہوئی ۔خاموش رہنے اور نظر انداز کرنے کی صلاحیت وہ رکھتی ہی نہیں ۔ ایسے کوئی آثار نہیں کہ اپوزیشن کے ساتھ ایک پر امن ماحول میں کام کیا جائے۔

پنجاب اور مرکز میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کن اقدامات سے اعتماد پیدا ہو سکتاہے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو اس کی خصوصی نشستیں دی جائیں ۔یہ کوئی احسان نہیں ، ذمہ داری ہے ۔ وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب سے پہلے یہ سیٹیں نہ دے کردھاندلی کی گئی ہے ۔ بظاہر اختیار سپیکر کا ہے لیکن درحقیقت معاملات مریم کے ہاتھ میں ہیں ، جنہیں تحریکِ انصاف کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جن سیٹوں پرتحریکِ انصاف کا دعویٰ ہے کہ فارم 45کے مطابق اسکے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے ، وہاں آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے ۔ کیسے کیا جائے آئین اور قانون کے تحت فیصلہ ؟اتنی بہت سی سیٹوں سے ہار مان لیں ؟ اس طرح تو وزیرِ اعلیٰ کا الیکشن ہی متنازع ہو جائے گا۔

حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ اتنی تلخی پیدا نہ ہونے دی جائے کہ امور ِ سلطنت چلانا مشکل ہو جائیں ۔ امورِ سلطنت چلانا اپوزیشن نہیں ، حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ مریم نواز اگر اپنے دعوے میں سچی ہیں کہ وہ انتقام نہیں لینا چاہتیں تو تحریکِ انصاف پر نازل عتاب کو ہٹایا جائے ۔ سب جانتے ہیںکہ عمران خان پہ دو سو کیسز کیسے قائم کیے گئے ۔خفیہ وڈیوز اور آڈیوٹیپنگ سے دستبردار ہوا جائے ۔

ایسا ہوگا کبھی نہیں ۔ مریم نواز کے مزاج میں تصادم مول لینا گندھا ہوا ہے ۔ اپنی زندگی کی بڑی کامیابیاں انہوں نے جنگ و جدل سے حاصل کیں ۔ جنرل فیض حمید کے خلاف بھی وہ برسرِ پیکار رہیں اور جیت گئیں ۔ نجی زندگی میں بھی وہ اپنی منوا کر چھوڑتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بھائیوں کے ہوتے ہوئے میاں محمد نواز شریف کی سیاسی وارث بن چکی ہیں ۔ حمزہ شہباز کو بھی انہوں نے انکی حدود میں رکھنے میں کامیابی حاصل کی ۔ کیلبری فونٹ اور قطری خط سمیت کئی مواقع پر مریم نواز نے میاں صاحب کیلئے شدید مسائل بھی پیدا کیے ۔

فارم 45پر قانون کے مطابق چلا جائے تو بہت سی سیٹیں درحقیقت نو ن لیگ ہاری ہوئی ہے ۔ پنجاب سے صحافی گرفتار کیے جا رہے ہیں ۔ تحریکِ انصاف اور اسٹیبلشمنٹ میں کشیدگی ملک اور معیشت کیلئے نقصان دہ ہے لیکن مریم صاحبہ ہرگز نہیں چاہیں گی کہ یہ جنگ ختم ہو۔ جہاں تک انتقام کا تعلق ہے تو وہ منتقم مزاج ہی گردانی جاتی ہیں۔ شہباز شریف میںالبتہ مصالحت کا رجحان ہے ۔

انسان کا ایک مزاج ہوتا ہے۔ جنرل باجوہ سب فریقوںکو لبھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ مریم صاحبہ کا مزاج محاذ آرائی کا ہے ۔ مزاج کبھی نہیں بدلتا۔ سوائے ان مستثنیات کے ، جو اپنی غلطیوں پہ غور و فکر کے عادی اور اصلاح کے آرزومند ہوں ۔ تنقید کرنے والے صحافیوں کے ساتھ مریم صاحبہ کیسا رویہ روا رکھتی ہیں ،نظر آرہا ہے ۔

کہنے کو تو نواز شریف بھی انتخابی مہم میں کہتے رہے کہ انتقام نہیں لوں گا ۔ ساتھ لیکن یہ بھی کہتے تھے کہ حساب تو ہونا چاہیے ۔حساب کا مطلب انتقام ہی ہے ۔ دوسری طرف جو وزیرِ اعلیٰ آرہا ہے علی امین گنڈا پور کی شکل میں ، وہ بھی اسی میدان کا کھلاڑی ہے ۔یہ دونوں ایک دوسرے کو دو آتشہ ہوکر ملیں گے ۔گنڈا پور نے جیسے چھوٹتے ہی کہاکہ مولانا کو پاگل خانے میں ڈالیں گے ۔اس وقت تحریکِ انصاف کو گنڈا پور جیسے پھڈے با ز کی اشد ضرورت نہ ہو تو انکی اپنی جگہ بھی وہیں بنتی ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ بھی تحریکِ انصاف کے ساتھ کوئی صلح صفائی نہیں چاہتی ۔ ملک میں مولا جٹ والی ایک بھرپور فلم چلنے والی ہے ۔

اسٹیبلشمنٹ کی جس بھٹی سے کبھی بھٹو اور نواز شریف تخلیق ہوئے تھے ۔ آج پرویز خٹک، علیم خان اور جہانگیر ترین تخلیق ہوئے ہیں ۔ بیچ میں جنرل کیانی کا ایک مختصر سا دور استثنیٰ تھا۔ عدلیہ کی سپورٹ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے ۔

مریم صاحبہ کیلئے انتقام سے باز رہنا ایسا ہی ہے ، جیسے لوہا یہ کہے کہ آئندہ وہ زنگ نہیں پکڑے گا ۔دشمن کو انسان مغلوب کرے تو دماغ میں کیمیکلز خارج ہوتے اوربڑی تسکین ملتی ہے ۔ مریم صاحبہ نے قیمتوں کا نوٹس لیا۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں اہم ہیں لیکن ملک میں مہنگائی تیل مہنگا ہونے کی وجہ سے ہے ۔ تیل مہنگا ہے ڈالر مہنگا ہونے سے ۔ ڈالر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مہنگا ہوا۔ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت طاقتوروں کے عتاب کا شکار ہے ۔ جیل میں پڑے سب سے مقبول لیڈر کو نکاح کرنے پر بھی سزا دے دی گئی ۔ سیاسی عدم استحکام کیا خاک ختم ہو؟ ڈالر کی اصل قیمت دو سو سے کم ہے ۔

خصوصی نشستیں نہ دے کر وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ اعظم کا الیکشن متنازع بنانے میں کون سی حکمت کارفرما ہے ۔ کیا ملک اس طرح چلا کرتے ہیں ۔فارم 45کانام لیں تو لیگی لیڈروں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے پر اوپن کورٹ سماعت شعبدے بازی ہے ۔ الیکشن کمیشن کو تحریکِ انصاف سے بلے کا نشان چھیننا ہی نہیں چاہئے تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین