• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برادرم منصور علی خان نے جب کبھی عمران خان کا ذکر کرنا ہوتا تھا تو وہ گفتگو کا آغاز ’’میرا کپتان‘‘ سے کرتے تھے سو میں بھی آج انکی تقلیدکرتے ہوئے عرض کروں گا کہ میرا کپتان اپنی ہر تقریر کا آغاز ’’ایاک نعبدو وایاک نستعین ‘‘کی ایک آیت مبارکہ کے اس ٹکڑے سے کیا کرتا تھاجس پر مختلف حلقوں سے مختلف قسم کے تبصرے تعریفیںاور تنقیدیں ہوتی تھیں مگر میں واحد شخص تھا جس نے اس حوالے سے کبھی لب کشائی نہیں کی کہ میں چھوٹا موٹا شاعر بھی ہوں اور جانتا ہوں کہ ایک شعر میں ہزار جہاں چھپے ہوتے ہیں۔ قرآن تو خیر ایک گنج ِمعانی ہے اس کی ایک ایک آیت کی سینکڑوں تفسیریں لکھی جا چکی ہیں۔ میرا کپتان آج کا ولی آخر زماں ہے اگر آپ کو میرا یہ دعویٰ برا لگے تو کسی بھی انصافی دوست کی رائے لے لیں وہ ’’ولی ‘‘کی بجائے ’’نبی‘‘کے اضافے کو زیادہ بہتر قرار دے سکتا ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ میرا کپتان جب ’’ایاک نعبدو‘‘کہتا ہے تو اس مفسرِقرآن کے ذہن میں ’’تیری ہی عبادت کرتے ہیں کے ’’لفظ‘‘کی کتنی ہی شکلیں ہوسکتی ہیں ،مثلاً 2018ء کے الیکشن میں ’’تیری‘‘ کا مخاطب کوئی اور تھا اور جب وہ کہتا تھا ’’وایاک نستعین‘‘ یعنی صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں تو نہ صرف وہ خود بلکہ جن سے مدد مانگی جا رہی تھی وہ بھی ساری بات سمجھ جاتے تھے اور یوں میرے کپتان نے اس دعا کی برکت سے اپنے دل کی مرادیں پوری کیں۔

میرا کپتان بہت پہنچا ہوا ہے وہ جانتا ہے کس وقت کس لفظ کو کن معنوں میں استعمال کرنا ہے، مجھے حیرت ہے کہ میرے کپتان نے لفظوں کو مختلف معانی پہنانےکے فن میں یکتا ہونے کے باوجود شاعری شروع کیوں نہ کی اگر وہ ایسا کرتا تو اسے انصافیوں کی شکل میں جتنی زرخیز زمین ملی ہوئی تھی وہ اس کے ایک ایک شعر کا موازنہ غالب اور اقبال سے کرتے اور بالآخر یہ حق بات کہنے پر مجبور ہو جاتے کہ یہ دو شاعر اگر کپتان کے عہد میں ہوتے تو اس کے سامنے زانوےتلمذ تہہ کرتے اور آپ کا شمار دنیا کے عظیم شعرا میں ہو رہا ہوتا،اگرچہ کہا آج بھی یہی جا رہا ہے مگر یہ ’’پٹواریوں‘‘ کا پروپیگنڈاہے۔ بات میرے کپتان کی لفظ شناسی پر ہو رہی تھی اور ایک ایک لفظ میں ہزار معانی دریافت کرنے اور پھر بوقت ضرورت اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنے کے حوالے سے کی جا رہی تھی مثلاً ایک راوی کا کہنا ہے اور واضح رہے یہ راوی پرلے درجے کا جھوٹا ہے اس کا بیان ہے کہ اس نے ایک دن کپتان سے کہا اے میرے کپتان اگر جان کی امان پائوں توآپ کے بارے میں یہ تاثر کیوں عام ہو گیا ہے کہ آپ بہت مکرسے کام لیتے ہیں، کہتے کچھ اور ہیں کرتے کچھ اور ہیں، آپ کے دشمنوں نے آپ کی پارٹی کا نشان بلے کی بجائے یوٹرن رکھ دیا ہے، یہ سن کر میرے کپتان نے کہا تم نے وہ آیت نہیں سنی جس کا مطلب ہے کہ بے شک اللہ بہترین مکرکرنے والا ہے جیسا کہ میں شروع میں بتا چکا ہوں کہ یہ راوی پرلے درجے کا جھوٹا ہے اس کے جھوٹے ہونے کا ایک اور ثبوت اس وقت ہی مل گیا جب اس نے کہا کہ کپتان کے منہ سے قرآنی آیت کے معانی میں اس در ج تحریف پر اس کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے غصے سے لال پیلا ہو کر کہا’’ تم لوگوں کو جتنا چاہے فریب دو ان سے ایک کروڑ نوکریوں، پچاس لاکھ گھروں ، سارے گورنر ہائوسز کو ملیا میٹ کرکے وہاں یونیورسٹیاں بنانے اور اس نوع کے پرفریب دعوے کرتے رہو لیکن خبردار اگر آئندہ تم نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے مذہب کا سہارا لیا ،اگر تم نے ایسا کیا تو پھر مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہو گا ‘‘اس راو ی کے آخری جملے پر مجھے ہنسی کا دورہ پڑ گیا میں نے اسے کہا یار آئندہ جب کبھی مجھے کوئی پریشان کن لمحہ پیش آئے اور مجھ پر اداسی کی کیفیت طاری ہو تو پلیز میرے فون پر چلے آنا، اس نے میری اس بات کو خراج تحسین تصور کیا اور میرا ہاتھ چومتے ہوئے کہا سر میں آپ کا خادم ہوں اجازت ہو تو روز حاضر ہو جایا کروں۔

یہ کالم لکھنے کے دوران میرے ایک دوست کا فون آیا ہے کہ وہ عمران خان پرایک کتاب لکھ رہا ہے جس کا عنوان ’’میرا کپتان‘‘ ہے میں نے پوچھا اس میں کیا لکھو گے بولا سب کچھ تو نہیں بتا سکتا تم ایسے لوگ پہلے ہی میرے آئیڈیاز چرا کر، ان پر پورے پورے تھیسس لکھ کر لوگوں سے داد وصول کرتے ہو بس اتنا بتا دیتا ہوں کہ میں نے عمران خان سے صرف ایک سوال پوچھنا ہے اور وہ یہ کہ تم ربع صدی سے سیاست میں ہو اور دعویٰ کرتے ہو کہ میری اس طویل جدوجہد کا مقصد صرف عوام میں شعور پیدا کرنا تھا اگر واقعی ایسا ہی ہے تو شریف فیملی کے ساتھ روابط ،انکے قصیدے پڑھنے، فوج سے روابط بڑھانے اور پھر ان کے ذریعے اقتدار میں آنے اور کچھ عرصہ بعد تک فوج کے جتنے قصیدے تم نے پڑھے،شاید شیخ رشید نے بھی کبھی نہ پڑھے ہوں اور جب تحریک عدم اعتماد کی صورت میں اقتدار سے الگ ہونا پڑا تو تم نے فوج کے خلاف زہر افشانی شروع کر دی تم نے لوگوں کو یہ شعور بھی دیا کہ اگر وہ اقتدار میں ہے تو پاکستان ہے اگر نہیں تو پاکستان بھاڑ میں جائے، تم نے کہا میری حکومت گرانے سے بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم گرا دیاجاتا اور اب تم آئی ایم ایف کو خط لکھ رہے ہو کہ اگر پاکستان سے معاہدہ کیا تو اقتدار میں آنے کے بعد تم اس معاہدے پر عمل نہیں کروگے۔

میرا یہ عالم فاضل دوست ابھی اور ایسی باتیں مجھ سے شیئر کرنا چاہتا تھا جو پاکستان کے ہر شہری کے علم میں ہیں مگر پھر یہ آخری جملہ کہہ کر چلاگیا مجھے علم ہے تم قلم پکڑ کر میرے یہ پوائنٹ نوٹ کر رہے ہو لہٰذا اب مزید کچھ نہیں کہوں گا کہ میری یہی باتیں کسی محفل میں بیان کرتے ہوئے اپنی علمیت کا رعب ڈالو گے میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اس کی جاری گفتگو کے دوران ہی اپنا فون آف کر دیا ۔

اور آخر میں کپتان سے ایک گزارش ’میرے کپتان‘ میرے کہے سننے کو معاف کرنا لفافہ لیکر لکھنا ہی میری مجبوری اور ضرورت ہے اگر آپ اپنے لفافہ صحافیوں میں میرا نام بھی شامل کر لیں تو پھر میں اس حقیقت سے کیسے انکار کر سکوں گاکہ آپ صرف قائداعظم کے بعد سب سے بڑے لیڈر ہی نہیں بلکہ ایمان کی مضبوطی کے لحاظ سے آپ کا شمارقرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں ہوتا ہے۔

تازہ ترین