پاکستان اس وقت بڑھتے ہوئے بین الاقوامی قرضوں، خاص طور پر آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ۔ جبکہ بھاری شرح سود، جمود کا شکار برآمدات، بڑھتی ہوئی درآمدات، ناقص تعلیمی نظام، اور ناکام نظام انصاف کی وجہ سے شدید معاشی بحران کا شکارہے ۔ ہمارا بین الاقوامی جدت طرازی اشاریہ انتہائی نچلی سطح پر ہے،ہر سال تقریباً 10 لاکھ نوجوان مرد اور خواتین بیرو ن ملک ہجرت کر رہے ہیں۔
ہمیں ان ماضی کی زنجیروں سے آزادی کیلئے، جن کی وجہ سے یہ ابتر صورت حال پیدا ہوئی ہے، ایک واضح نظر یئےاور اس پر عمل درآمد کی پالیسی کی ضرورت ہےتا کہ ہم موجودہ کم آمدنی قدرتی وسائل پر مبنی معیشت سے ٹیکنالوجی پر مبنی اعلیٰ قدر کی طرف گامزن ہوسکیں۔ اس کے لئے بین الاقوامی طور پر منظور شدہ سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے اقوام متحدہ کے پروٹوکول کے مطابق ایک باقاعدہ ملک گیر’’ دور اندیش‘‘ منصوبہ بندی کی مشق کی ضرورت ہے۔ اس مشق میں ترقی کیلئے مختصر، درمیانی اور طویل مدتی حکمت عملیوں کی تیاری کے لئے نجی شعبے، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ ساتھ ہر شعبے کے ماہرین کیساتھ بڑے پیمانے پر مشاورت بھی شامل ہے۔
ایسی ہی ایک مشق میری نگرانی میں 2003-2005 ء میں کی گئی تھی اور اس کے نتیجے میں 300 صفحات پر مشتمل دستاویز کو کابینہ نے اگست 2007 ءکو منظور کیا تھا۔ اس کے بعد سے، مختصر، درمیانی اور طویل مدت کی حکمت عملی کو یقینی بنانے کیلئے ایسی کوئی مشقیں نہیں کی گئیں۔ ترقی کی حکمت عملی تیار کرنے کے لئے تمام بڑی مخالف جماعتوں کو اس میں شامل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ جب حکومت کی تبدیلی ہو تو سابقہ پالیسیوں کو ترک نہ کیا جائے ۔ تعلیم، صحت، سائنس اور ٹیکنالوجی، جدت طرازی، زراعت، توانائی، پانی، برآمدات میں اضافہ اور ایسے دیگر اہم شعبوں میں پالیسیوں کے حوالے سے تمام بڑی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔اس تناظر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نجی شعبے کو ہی اہم کردار ادا کرنا ہے۔ حکومت کا کردار بنیادی طور پرکاروبار اور صنعت کاری کے عمل کو مناسب پالیسیوں کے ذریعے آسان بنانا ہےاس کے لئےسرمایہ کاری اور معلومات تک رسائی کو یقینی بنانے، انتہائی ہنر مند اہلکاروں کی تربیت اور معیارات اور معیار سے متعلق خدمات فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس ترقیاتی عمل میں، عوامی پالیسیاں، جیسے اعلیٰ اور نچلی سطحوں پر سماجی، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیاں اور صنعتی پالیسیاں ، نیز قانون سازی ،کاروبار کا عمل ایک پر بصیرت سائنس اور ٹیکنالوجی پالیسی کے ساتھ کیا جانا چاہئے جو اعلیٰ سطح کے انسانی وسائل کی تربیت، ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور نجی کمپنیوں کو بیرونی ٹیکنالوجی کیلئے ان کی جذب کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کیلئے ’’کر کے سیکھنے‘‘ ’’ learning by doing‘‘کے طریقوں میں شامل ہونے کیلئے مراعات فراہم کرنے پر مرکوز ہو۔ اعلیٰ قدر آمدنی اشیاء اور خدمات کی پیداوار کیلئے مشترکہ منصوبوں کی حوصلہ افزائی اور غیر ملکی فرموں کے ساتھ تعاون پاکستان کو اپنی مقامی ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں بہت مدد دے سکتا ہے۔
ایک پروڈکٹ پر مبنی صنعت کاری اور برآمد کانقطہ نظر وقت کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، حکومت شعبہ ادویات سازی میں حفاطتی ٹیکے(Vaccines) ، بائیوسیمیلرز ،نینو ادویات اورغذائی ادویات (Neutrceuticals)کی تیاری میں سہولت فراہم کر سکتی ہے۔ توانائی کے شعبے میں ہمیں پن چکیو ں،شمسی پینل اور پن بجلی گھروں (Hydro Electric Plants)کی بڑے پیمانے پر تیاری اور برآمد کیلئے آگے بڑھنا چاہیے۔ معدنیات کے شعبے میں، ہمیں خام مال کی برآمد پر پابندی لگانی چاہیے اور مشترکہ منصوبوں کی سہولت کے بعد صرف تیار شدہ اعلیٰ قدرمصنوعات (Purified Refined Mineral) کی برآمد کی اجازت دینی چاہئے۔ زرعی شعبےمیں، حلال خوراک کی برآمدات، پھلوں اور سبزیوں کی پروسیسنگ اور برآمدات کیساتھ ساتھ نامیاتی کپاس (Organic Cotton) اور اس کے مصدقہ کپڑا سازی صنعت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ ایسے تمام شعبوں میں حکومت کو چاہیے کہ وہ مخالف جماعتوں کی مشاورت سے واضح طویل المدتی پالیسیاں بنائے، ہنر مند افرادی قوت کی تربیت میں مدد کرے اور ٹیکس مراعات فراہم کرے۔
1960 ءکی دہائی میں واپڈا ایسی صنعتیں لگا رہا تھا، انہیں چند سال چلاتا تھا اور پھر منافع میں مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں نجی شعبے میں منتقل کر دیتا تھا۔ اس نے نجی شعبے کو بھاری سرمایہ کاری کے خطرے سے آزاد کر دیا، خاص طور پر جب حکومتوں کی تبدیلی حکومتی پالیسیوں میں زبردست تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔اس پروگرام کو دوبارہ شروع کرنا چاہئے۔ امن و امان کی صورت حال کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے تحفظ کے طور پر حکومتی انشورنس کی پیشکش کی جا سکتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے یہ ایک اہم قدم ہو گا۔ نئی حکومت کے ایسے اقدامات ہمارے زوال پذیر صنعتی شعبے کو بڑا فروغ دے سکتے ہیں۔
اگرچہ ہمارے صنعتی شعبے کو فروغ دینے کیلئے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی بہت زیادہ ضرورت ہے، لیکن یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب ہمارے پاس ایک مضبوط عدالتی نظام ہو اور ہم عالمی بینک سے کاروبار کرنے میں آسانی کے انڈیکس (Ease of Doing Business Index) میں اعلیٰ مقام پر ہوں۔ کاروباری آسانی کیلئے ضروری ہے کہ کسی ملک میں ریگولیٹری ماحول (Regulatory Environment)مقامی کمپنی کے قیام اور عمل کیلئے زیادہ سازگار ہو۔
جدت طرازی ہی ہے جس نے پوری دنیا کی معیشتوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ اس میں نئے خیالات، عمل، ٹیکنالوجیوں اور مصنوعات کی ترقی اور اطلاق شامل ہے، جس سے بہتر معیار زندگی اور مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جدت طرازی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی میں اضافہ کرکے مجموعی GDP کی توسیع میں حصہ ڈالتی ہے۔ یہ کاروبار کے نئے مواقع پیدا کرتی ہے اور جدت طراز صنعتوں کی تخلیق کو آگے بڑھاتی ہے۔
انصاف تک فوری رسائی کے علاوہ، دانشورانہ املاک کے حقوق (Intellectual Property Rights)، جیسے پیٹنٹ (Patents)، ٹریڈ مارک (Trade Mark)، اور کاپی رائٹس (copy rights) بھی جدت کی حوصلہ افزائی کیلئے ضروری ہیں۔ ہمیں چھوٹے کاروباروں کیلئے فنڈنگ کی سہولت فراہم کرنے کیلئے پالیسیاں بھی متعارف کرانی ہوں گی۔ اس کے علاوہ دوستانہ پالیسیاں، جیسے بزنس انکیوبیٹرز، ٹیکس کی ترغیبات اور ہموار ضابطوں کی بھی ضرورت ہے۔تاہم، یہ سب کچھ ہونے کیلئے ہمیں ایک پر بصیرت، دیانت دار اور تکنیکی طور پر قابل حکومت کی ضرورت ہے جو اس ملک کو آگے لے جا سکے تاکہ یہ تکنیکی طور پر چلنے والی علمی معیشت کی طرف منتقل ہو۔ اس کیلئے تمام وزراء اور سیکریٹریز اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ ترین ماہر ہونے چاہئیں ۔اس لیے ایک ٹیکنو کریٹ حکومت وقت کی اشد ضرورت ہے۔