• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہبازشریف وزیراعظم تو بن گئے مگر کیا وہ اس کمزور ترین حکومت کے ساتھ نہایت گھمبیر مسائل حل کرپائیں گے؟جس طرح 1988ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کو وزیراعظم بناتے وقت شرط رکھی گئی تھی کہ پرانے سیٹ اپ کے کچھ لوگ مثلاً صدر غلام اسحاق خان اور وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان برقرار رہیں گے،اسی طرح مسلم لیگ(ن)کو بھی بتادیا گیا ہے کہ پالیسیوں کے تسلسل کی خاطر نگراں سیٹ اپ کے بعض افراد بدستور اپنے عہدوں پر متمکن رہیں گے۔مسلم لیگ (ن)کے وہ رہنما جو اڑیل ثابت ہوسکتے تھے اور اس بندوبست کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے جیسا کہ رانا ثنااللہ ،میاں جاوید لطیف اور خواجہ سعد رفیق ،انہیں پہلے ہی الیکشن میں ہروا کر راستے سے ہٹا دیا گیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ وزارت خزانہ کا قلمدان ڈاکٹر شمشاد اختر کے پاس رہے گا،صنعت و پیداوار کے وزیر گوہر اعجاز اور آئی ٹی اینڈ کمیونیکیشن کے وزیر ڈاکٹر عمر سیف ہی ہوں گے۔اس بات پر بھی اصرار کیا جارہا ہے کہ سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو مشیر کی حیثیت سے وزارت داخلہ کا نگران مقرر کیا جائے۔ہاں آپ چاہیں تو خواجہ آصف کو وزیر دفاع بنالیںجو چپ چاپ ایک طرف بیٹھ کر دہی کھاتے رہیں گے۔صدر مملکت اور چیئر مین سینیٹ کے منصب پر پہلے ہی پیپلز پارٹی سے معاملاے طے پاچکے ہیں۔ایک وزارت چوہدری شجاعت کے صاحبزادے کو دینا پڑے گی۔دیگر چھوٹی اتحادی جماعتوں کو بھی راضی کرنا ہے۔اب اس صورتحال میں گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے کابینہ میں شامل نہ ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کےلئے جگہ نہیں بن پارہی ۔لاہور میں ایم کیو ایم کے وفد کی میاں نوازشریف اور شہبازشریف کی موجودگی میں ہونے والی ملاقات کے بعد مذاکرات کے کئی دور مکمل ہوچکے ہیںمگر معاملات طے نہیں ہو پا ر ہے ۔ ایم کیو ایم کو دو وزارتیں اور گورنر سندھ کا منصب دینے کا وعدہ کیا گیالیکن پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہوجانے کے بعد انداز و اطوار بدل گئے۔اب نہ صرف وزارتوں پر کوئی حتمی بات نہیں کی جارہی بلکہ گورنر سندھ کے حوالے سے بھی یہ نامعقول بات کہی جارہی ہے کہ گورنر کا عہدہ تو ایم کیو ایم کے پاس ہی رہے گا مگر آپ اس منصب کے لئے کس کی سفارش کریں گے ،یہ آپ کو ہم تجویز کریں گے۔لاہور میں جب فاروق ستار ،مصطفی کمال اور کامران ٹیسوری پر مشتمل تین رُکنی کمیٹی کے مسلم لیگ(ن)سے مذاکرات کا دوسرا دور چل رہا تھاتو شہبازشریف نے کہا،آپ گورنر کی تعیناتی کے لئے تین نام دیدیں۔مصطفی کمال نے کہا،ٹھیک ہے ،ہم ابھی لکھوا دیتے ہیں۔خواجہ سعد رفیق نے کاغذ پنسل تھام لیا۔مصطفی کمال بولے،کامران ٹیسوری،کامران ٹیسوری،کامران ٹیسوری۔فاروق ستار نے گرہ لگائی کہ کامران ٹیسوری ہماری ریڈ لائن ہے۔مگر ایم کیو ایم سے اصرار کیا جارہا ہے کہ آپ خوش بخت شجاعت کا نام پیش کریں۔سوال یہ ہے کہ جب شراکت اقتدار کے فارمولے پر اتفاق ہوجانے کے بعد یہ طے ہوگیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی مسلم لیگ(ن)کا ہوگا تو کیا پیپلز پارٹی یہ مطالبہ کرسکتی تھی سردار ایاز صادق کے بجائے کسی اور کو اُمیدوار نامزد کیا جائے؟

لیکن مسلم لیگ(ن)کو کامران ٹیسوری کے نام پر اعتراض کیوں ہے؟ اور خوش بخت شجاعت کو گورنر سندھ بنانے پر اصرار کیوں کیا جارہا ہے؟ جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں جنرل(ر)خالد مقبول گورنر پنجاب تھے۔مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ ان سے ناراض ہیں اور انہیں ہٹا کر نیا گورنر لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں میں نے گورنر ہائوس میں ایک نشست کے دوران ان سے سوال کیا کہ کیا واقعی ان کی کرسی خطرے میں ہے؟جنرل(ر)خالد مقبول قہقہہ لگا کر ہنسے اور کہنے لگے ،آپ نے وہ کونے میں بیٹھ کردہی کھانے والا لطیفہ تو سنا ہوگا۔میں بھی چپ چاپ کونے میں بیٹھ کر دہی کھارہا ہوں، مجھ سے کسی کوکیا تکلیف ہوسکتی ہے۔گورنر کا عہدہ ایک رسمی اور علامتی منصب ہوتا ہے مگر کامران ٹیسوری عوامی گورنر بن گئے۔ تحریک انصاف نے تو محض دعوے کئے تھے کہ پرائم منسٹر ہائوس میں یونیورسٹی بنائیں گے ،گورنر ہائوس کو عوام کےلئے وقف کردیں گے مگر کامران ٹیسوری نے سچ مچ یہ کر دکھایا۔انہوں نے گورنر ہائوس کے دروازے عوام کےلئے کھول دیئے۔گورنر ہائوس کے باہر ایک گھنٹی لگادی گئی ہے ،دن ہو یا رات کوئی بھی شخص یہاں آکر انصاف کی دہائی دے سکتا ہے۔گورنر ہائوس میں24ہزار اسکوائر فٹ پر آئی ٹی یونیورسٹی بنائی گئی ہے جہاں 50ہزار طلبہ و طالبات مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس،میٹاورس اور ویب تھری ڈویلپر کے کورس کروائے جارہے ہیں۔نوجوانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے روزگار اسکیم کے تحت آلو کے چپس اور پوپ کارن بنانے والی مشینیں مفت تقسیم کی گئیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ ان تمام فلاحی و سماجی کاموں کےلئے سرکاری وسائل استعمال نہیں کئے گئے۔عوامی نوعیت کے ان اقدامات کے باعث گورنر کامران ٹیسوری وزیراعلیٰ سندھ یا میئر کراچی سے زیادہ مقبول سمجھے جاتے ہیں۔یہی کارکردگی اور اقدامات ان کے راستے کی رکاوٹ بن گئے۔چنانچہ جس طرح 2016ء میں جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی کو ناتوانی کے باجودعمر کے آخری حصے میں گورنر لگایا گیا تھا اسی طرح اب بھی کسی معمر فرد کو گورنر تعینات کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔تاکہ ایک علامتی بلکہ ملامتی عہدے میں پھر سے جان نہ پڑ جائے اور گورنر ریاست کے نمائندے کی حیثیت سے کونے میں بیٹھ کر چپ چاپ دہی کھاتا رہے۔ضروری کاغذات پر دستخط کرے ،ہفتے میں ایک آدھ تقریب میں مہمان خصوصی بن کر چلا جائے ،کوئی فیتہ کاٹ کر کسی مارکیٹ کا افتتاح کرلے یا زیادہ سے زیادہ علماہ و مشائخ کے وفد سے ملاقات کی صورت میں نظر آجایا کرے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)سمیت کسی کو بھی کامران ٹیسوری جیسا عوامی گورنر نہیں چاہئے۔

تازہ ترین