مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی ، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کے مشترکہ امیدوار کے طور پر پاکستان کا 24واں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد میاں شہباز شریف نے اگلے پانچ سال کیلئے اپنی حکومت کے جس ہمہ جہت ایجنڈ ے کا اعلان کیا ہے اس پر عملدرآمد سے بلاشبہ ملک معاشی گرداب اور سماجی بے چینی سے باہر نکل سکتا ہے لیکن سیاسی عدم استحکام جو تمام مسائل کے حل کی بنیاد ہے، اور جس کا مظاہرہ اتوار کو ایوان میں نظر آیا۔ شاید ملک کو مزید کچھ عرصہ تک نصیب نہ ہو سکے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کیلئے بلائے گئے اجلاس میں شروع سے آخر تک اپوزیشن بنچوں کی جانب سے جس ہلڑ بازی ، شورشرابے اور نعرے بازی کا مظاہرہ کیا گیااور حکومتی بنچوں سے جس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا گیا، 24 کروڑ عوام کے اس ملک کے منتخب ایوان کے شایان شان نہیں تھا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے اسپیکر کے ڈائس کا گھیرائو کر لیا، پوسٹر لہرائے، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور مسلسل نعرے بازی کی جو منتخب وزیر اعظم کے خطاب کے دوران بھی جاری رہی۔ نوبت یہاں تک پہنچی تو کسی غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کیلئے سارجنٹ ایٹ آرمز طلب کرنا پڑے۔ گنتی کے نتیجے میں میاں شہباز شریف کو 201 ووٹ جبکہ ان کے حریف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب کو 92 ووٹ ملے۔ یوں شہباز شریف بھاری اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اپنے پہلے خطاب میں جو اپوزیشن کی مسلسل نعرے بازی کے دوران مکمل ہوا منتخب وزیر اعظم نے مخالف سیاسی قوتوں کو میثاق معیشت اور میثاق مفاہمت کی فراخ دلانہ پیشکش کی اور ان سے کہا کہ آئیں مل کر پاکستان کو سنواریں۔ اسے مشکل چیلنجز سے نکالیں، غربت میں کمی، روزگار کی فراہمی، معاشی عدل ، سستے اور فوری انصاف کے لئے کام کریں۔ انہوں نے نئی حکومت کا معاشی منصوبہ، بجٹ میں پیش کرنے کا وعدہ کیا تاہم اس کے کچھ خدوخال اپنی تقریر میں واضح کر دئیے۔ ان میں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے دوست ممالک کی مدد،سرمایہ کاروں کیلئے ویزا فری انٹری کی سہولت، سرمایہ کاری اور کاروبار دوست ماحول کے راستے میں حائل فرسودہ قوانین کا خاتمہ ، تیل سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو متبادل ذرائع اختیار کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت، ٹیکس نظام میں اصلاحات، بجلی اور ٹیکس چوری کا خاتمہ اور متعدد دوسرے اقدامات شامل ہیں۔ انہوں نےامریکہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک سے تعلقات میں بہتری، کسی گریٹ گیم کا حصہ نہ بننے، ہزاروں ارب روپے کے اندرونی اور بیرونی قرضوں سے نجات کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ انتخابی شکایات کے ازالے کیلئے ہونے والے احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے اس کیلئے قانونی فورمز سے رجوع کیا جائے۔ 9 مئی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان میں ملوث عناصر کوسزائیں ضرور ملیں گی لیکن جو لوگ بے قصور نکلے انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ منتخب وزیر اعظم نے ملک بھر میں بہترین ٹرانسپورٹ اور برآمدی سہولتوں کا جال بچھانے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ ہم چاروں صوبوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ایک بڑا چیلنج ہے، اس پر بھی قابو پایا جائے گا۔ انہوں نے ٹیکسوں کی سطح کم کرنے اور بہترین ٹیکس دہندگان کو پاکستان کے معمار کا درجہ دینے کے عزم کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ مسائل مسلسل محنت سے حل ہوتے ہیں جادو، ٹونے سے نہیں۔جمہوری نظام میں اپوزیشن بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنی حکومت ۔ پاکستان اس وقت جن سنگین بحرانوں کا شکار ہے وسیع تر قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے سیاسی جماعتیں گروہی رنجشیں بھلا کر ان کے مقابلے کیلئے مل جل کر کام کریں۔