کبڈی سیاسی ہو، مذاکراتی یا پھر مالیاتی اسے کھیلنے کے لئے کسی خاص موسم کی پابندی نہیں۔ کبڈی کے لئے دو ٹیموں کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ایک ہی ٹیم میں کبڈی کا غیر موسمی دوستانہ میچ کھیلا جا سکتا ہے۔ورنہ سوچی سرمائی کھیلوں کی طرح ہمیں برف باری کاانتظار کرنا پڑتا۔ کبڈی کے لئے کوئی خاص میدان بھی نہیں سجایا جاتا جہاں گنجائش ملے وہاں کبڈی کھیلی جا سکتی ہے۔پورا مُلک لہولہان ہے اور پھر شُکر ہے کہ یہاں نیرو کوئی نہیں ورنہ بانسری جیسا غیر ثقافتی ہتھیار رکھنے کے الزام میں گرفتار ہو جاتا۔ یقین نہ آئے تو پنجاب پولیس سے پوچھ لیں جس نے ریاست کی رِٹ قائم کرنے کے لئے پوری سرگرمی سے کرکٹ والے اکمل برادرز کے بعد گوجرانوالہ کے جھلا پہلوان اور ریچھ پہلوان کی تلاش شروع کر رکھی ہے۔ پنجاب کے عوام لمبی تان کر سو جائیں کیونکہ اُن کی محافظ پولیس کی چھاپہ مار ٹیم نے کھل کر ایک اور تاریخی اعلان بھی کر دیا ہے اور وہ یہ کہ آئندہ پانی سے محروم پانچ دریاوں کی سرزمین میں کسی ریچھ کو کوئی پہلوان ہاتھ میں لینے کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اجازت سے یاد آیا جو سرکاری بیان پچھلے ساٹھ سالوں سے حکمرانوں کے نام پر پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ ہمیشہ سے جاری کرتا آیا ہے ان میں اجازت کا صیغہ اس طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح الیکشن کے دن ووٹروں کو پنکچر لگانے کے لئے سرکاری وسائل استعمال ہوتے ہیں یا جس طرح بدامنی کے ہر بڑے واقعے اور ٹارگٹ کلنگ کے ہر دلخراش سانحے کے بعد ایسے واقعات کا نوٹس لینے والے قلعہ بند ’’مورچہ نشین‘‘ حضرات کہتے ہیں کہ آئندہ کسی قانون شکن کو سماج شکنی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کسی زمانے میں بے ضمیری کا مظاہرہ کرنے والے اور بے حسی پر خاموش رہنے والے شہر یا گروہ کو قبرستان کہا جاتا تھا۔ اب تو قبرستان میں وہ جرائم ہونے لگے ہیں جن کا ذکر سُن کر آدمیت شرما جائے۔ نمونے کے طور پر کالا باغ کی مرحوم اور مظلوم 23 سالہ پروین اختر کے ساتھ بعد از مرگ ہونے والی واردات دیکھ لیں۔ جس نے بے رحم خاوند اور بے ضمیر سماج کے ہاتھوں گھریلو تشدد کے خلاف احتجاج کی صدا بلند کرنے کے لئے خود اپنے آپ کو پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ مرنے کے بعد پروین اختر کی قبر کھود کر اُس کی لاش نکالی گئی پھر بے رحم اور ناپاک درندوں نے اُس کی لاش کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ مُلک کے سب سے بڑے صوبے کے جنرل اسپتال میں بسترِ مرگ پر لیٹی ایک بیمار خاتون کو اسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سے پہلے ڈب کلاں کے علاقے اور ڈج کوٹ کی بستی میں ایسی ہی علحیدہ علحیدہ ننگِ انسانیت وارداتیں ہوئیں مگر نہ تو علاقے کے ایس ایچ او خوابِ خرگوش سے جاگے اور نہ ہی صوبے کے آئی جی کے خرّاٹوں میں کوئی خلل پڑا۔ سرکاری خرچ پر پلنے والے اور حکومتی پٹرول پر چلنے والے پروٹوکول کے قافلے مظلوم خواتین کے گھروں کا رُخ نہیں کرتے۔ اب تو ایسی انسانیت سوز وارداتیں جن کی مناسب ٹی وی کوریج بذریعہ بریکنگ نیوز نہ مل سکے اُس کا پرچہ بھی درج نہیں کیا جاتا۔ کون ایف آئی آر لکھ کر ملزموں کے پیچھے بھاگ کر اپنا قیمتی کمرشل وقت ضائع کرتا پھرے...؟ تھانے لینڈ مافیا کے مالی مفادات کے تحفظ۔ صاحبانِ اقتدار کی تابعداری، سفاک وحشی مجرموں کے غضب اور قہر سے چھپنے کی پناہ گاہیں بن گئے ہیں۔ ان کی دیواروں کے اندر کوئی ایسا سوراخ بھی باقی نہیں بچا جہاں سے کسی مظلوم کی فریاد محرر کے کمرے تک پہنچ سکے۔
قانون شکن مشٹنڈوں کے جتھے دندنا رہے ہیں۔ سرکار دربار بے عملی کی گہری نیند سے اُٹھ کر اجازت نہ دینے والا ڈائیلاگ بول کر پھر سو جاتی ہے مگر قفل شکن سے آئین شکن تک اس طرح کے واقعات کی اجازت ایڈوانس نہیں لیتا بلکہ ایسا اجازت نامہ حاصل کرنے کے لئے کچھ شرائط پوری کرنا لازمی ہے۔ ان میں سے پہلی شرط ایک عدد سرکاری یا غیر سرکاری بندوق ہے جب کہ دوسری شرط قفل شکنی یا آئین شکنی کی واردات برپا کرنے کی صلاحیت اور وسائل۔ کچھ جمہوریت بیزار لوگوں کو ہماری نئی نویلی جمہوریت کے پانچ سالہ ہنی مون پیریڈ سے خواہ مخواہ کا بیر ہے۔ اگر کسی آزاد جمہوری معاشرے میں ہر سال صرف ایک یا دو، تین عدد وزیر اپنی ’’خالص کمائی‘‘ پر ایک عدد دوسری تیسری یا چوتھی شادی کر کے اپنی پارلیمانی طرز کی دلہن کو امریکہ جیسے عالمی ہمسائے کے ہاں چند ہفتوں کے ہنی مون پرلے جائے تو اسے بھی جمہوری آزادی کے گماشتے کبڈی کہہ دیتے ہیں۔
میں یہ کیسے مان جائوں کہ کبڈی ہمارا قومی کھیل نہیں ہے۔ کرکٹ کے اقتدار میں کبڈی۔ آرٹیکل 6کے نفاذ میں کبڈی۔ وفاقی سیکریٹریوں کے گریڈ 22میں ریلوے والی کبڈی۔ اور اب تو ہر روز نئے تجزیئے، نئے سروے اور نئے ٹاک شو کے ذریعے تاریخ کے غیر مقبول ترین حلقوں کو پسندیدہ ترین بنانے کی کبڈی۔ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے 48 فیصد لوگوں کی دال روٹی سے کبڈی۔ میگا پروجیکٹ اور برادرانہ نج کاری کی کبڈی۔ اس کے علاوہ ہر قومی ادارے میں ہر قومی مسئلے پر کبڈی۔
آئو! ہم سب مل کر کبڈی کبڈی کھیلیں۔ مگر کبڈی کے اس کھیل میں ہم کھلاڑی نہیں تماشائی ہیں۔ کھلاڑی طے شدہ ہیں جن کی ٹیم بھی ایک ہی ہے اور جن کی ہاکیوں کے ساتھ گیند جوڑ دیئے گئے ہیں۔ عام آدمی میدان سے باہر کھڑا ہے۔ اس نُورا میچ کا انجام اب نہ باریوں کا انتظارکرنے والا ہے اور نہ ہی سالوں اور عشروں کا۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر چند کھلاڑی، چند ہاکیاں اور اُن سے جُڑی ہوئی چند گیندیں ہی قومی میدان کا سرمایہ ہیں تو پھر مُلک کے 65 فیصد نوجوان کھیل میں شریک ہونے کے لئے کیا اُٹھائیں گے....؟ کلاشنکوف...؟ ٹی ٹی یا اُوزی...؟ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کھیل بھی ہو اور یکطرفہ بھی۔ ایسا کھیل کب تک چل سکتا ہے جس میں ریفری بھی خود کھلاڑی ہو...؟ دُنیا میں شاید ہی کوئی اور کھیل کبڈی کا مقابلہ کر سکے۔ یہ واحد کھیل ہے جس میں ٹانگ سے پکڑ کر گھسیٹنے۔ چھاتی پر دونوں ہاتھوں سے دوہتھڑ مارنے اور طاقتور کا منہ چانٹے مار کر لال کرنے کی اجازت ہے۔ باقی رہا سوال اپنے مُلک کے کھیلوں میں لاگُو آئین کا...؟ اب نظریہ ضرورت کی تازہ قسط کے مطابق اُسے کسی وقت بھی پنکچر کیا جا سکتا ہے۔حکومتی تاریخ کی کبڈی میں دو دفعہ ایمرجنسی آمریت نے لگائی اور ریاستوں کی تاریخ کا عالمی ریکارڈ بنایا۔ جمہوریت کا جوابی وار بھی لاجواب رہا۔ کھیلوں میں دو دفعہ ایمرجنسی کو لاگُو کرنے والا۔ اب سارے کے سارے ریکارڈ توڑنے کا دور آیا ہے۔ رہا ہمارا آئین تو اُس میں عسکری کبڈی کے ذریعے داخل ہونے والا آرٹیکل2-A شریعت پر مبنی ہے جبکہ اُس کے عین اگلا آرٹیکل نمبر 3سوشل ازم کے نفاذ کا تقاضا کرتا ہے۔ قومی نُورا کبڈی ٹیم نے نہ تو سوشل ازم کے ذریعے مواقع کی برابری اور معاشی مساوات کا راستہ کھلنے دیا اور نہ ہی شریعتِ محمدی ﷺ کے اصولوں کے تحت احترامِ آدمیت اور شرفِ انسانیت کی بحالی کا خواب پورا ہونے دیا۔ گیند کو ہاکی سے آزاد کیا جائے ورنہ ہاکی اور گیند دونوں کا مستقبل پنکچر زدہ کرکٹ جیسا ہو گا، افغانی کرکٹ۔