پاکستان کی نئی کولیشن گورنمنٹ پر ہنری کسنجر کا بھوت مسلط رہے گا۔ شہباز شریف اس وقت اقتدارسنبھال رہے ہیں جب یورپ یوکرائن پر روسی جارحیت کا دبائو محسوس کررہا ہے، خلیج میں سعودی عرب کے عزائم واضح ہیں ، افغانستان کچھ سننے اور ماننے کو تیار نہیں ،بھارت کی دشمنی ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی، امریکہ کے مسلسل پیچھے ہٹنے سے پیدا ہونے والے خلا میں چین کی پیش قدمی جاری ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب دنیا پاکستان سے لاتعلق ہوتے ہوئے کسنجر کے تصور کے مطابق عملیت پسند سیاست کی افادیت مان چکی ہے ۔ کچھ لوگ ہنری کسنجر کو عظیم تزویراتی ماہر خیال کرتے ہیں ، کچھ انہیں جنگی مجرم ٹھہراتے ہیں۔ ان کی میراث کی تفصیل کا خاکہ یوں بنتا ہے : ’’عالمی قانون اور انسانی حقوق، سہولت کی خاطر کی گئی افسانہ طرازی ہے ۔ صرف طاقت ہی اصل حقیقت ہےا ور طاقتور ممالک کے شہری ہی اہمیت رکھتے ہیں ۔ باقی دنیا عالمی طاقتوں کے مفادات کے حصول میں چارے کا کام دیتی ہے ۔‘‘گرچہ اُن کی وفات امریکی ریاست کنیٹی کٹ میں ہوئی تھی لیکن غزہ، مقبوضہ کشمیر اور یوکرین میں آج بھی انکی زندگی کے آثار مل رہے ہیں ۔
نصف صدی پہلے لائوس کی طرح غزہ میں بھی کسنجرین قتل وغارت کا بازار گرم ہے ۔ اب تک تیس ہزار سے زیادہ شہری جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ دنیا بھر میں شہریوں نے اس پر احتجاج کیا ہے ،ا ور کررہے ہیں ، لیکن اُنکی حکومتیں ، بشمول ہماری حکومت ، صرف مذمت اورعالمی عدالت انصاف میں بے جان بیانات تک ہی محدود ہیں ۔ کسی ملک نے اس خونریزی کو روکنے کیلئے عملی طور پر ایک انگلی تک نہیں اٹھائی ۔ بالکل جس طرح جب نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کوتیس سالہ خونیںقبضے کے بعد اگست 2019 میںہڑپ کرلیا توکسی ملک کی پیشانی تک شکن آلود نہ ہوئی ۔ یقیناً اس وقت کی حکومت پاکستان غیر موثر تھی ، لیکن اسے دنیا کی طرف سے بھی کشمیری لوگوں کیلئے سرد مہری کے سوا کچھ نہ ملا ۔ مغرب نے پاکستان کی بات سننے کا اس وقت دکھاوا کیا تھا جب اسے دونوں افغان جنگوں کیلئے ہمارے تعاون کی ضرورت تھی ۔ چین اور او سی آئی عالمی فورمز پر ہماری حمایت کرتے ہیں لیکن کشمیر کے حوالے سے اُن کا ہمیں یہ مشورہ ہے کہ یہ ایک طویل کھیل ہے ۔ یقینا ًیہ ایک طویل کھیل ہے کیونکہ پاکستان معاشی طور پر کمزور ہے ، اس کا دارومدار آئی ایم ایف پر ہے ، اور مغربی دنیا کے تصورات میں پاکستان کیلئے کوئی جگہ نہیں ۔ ہمارا چین کا مسئلہ گھمبیر ہے ۔ پاکستان چین اور امریکہ کے درمیان توازن رکھ سکتا تھا لیکن یہ اُس وقت تھا جب پاک چین تعلقات کی لے بہت دھیمی تھی اور چین بذات خود ایک غیر فعال عالمی طاقت تھا۔ لیکن 2015 ء میں سی پیک پر دستخط کرنے سے ہمارا کھیل امریکہ اورچین، دونوں کے مفاد کی بجائے’’ ایک کا فائدہ اور دوسرے کا نقصان‘‘ میں تبدیل ہوگیا ۔ مغرب کے بڑھتے ہوئے چین مخالف تیور پاکستان کو نقصان پہنچائیںگے۔ تائیوان، جنوبی چینی سمندر اور ٹیکنالوجی پر ٹکرائو کے حوالے سے پاکستان کے سامنے مشکل چوائس ہے۔
جبکہ بھارت میں بڑھتی ہوئی معاشی ترقی کے تیس سال اور پاکستان کے عدم استحکام کے تیس سال ضائع ہونے کی وجہ سے انکے درمیان فرق توہین آمیز حد تک بڑھ چکا ہے۔ مودی نے 2017میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ میں تین گنا اضافے کے ساتھ پاکستان کی صلاحیت کو جانچ لیا تھا۔ اس نے فروری 2019میں بالاکوٹ میں پاکستان کو للکارا۔ جب اس وقت کی حکومت نے فلائٹ لیفٹیننٹ ابھینندن کو دھمکیوں کی وجہ سے ، اور کسی جوابی کارروائی کے بغیر چھوڑ دیاتومودی کے منہ کو خون لگ گیا۔ چھ ماہ بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی دھمکی پر عمل کردکھایا۔ ہم ابھی تک صدمے سے بوکھلائے ہوئے ہیں ۔ قیام سے لے کر اب تک پاکستان کی سفارت کاری دشمن بھارت کے خلاف فوجی دفاع کیلئےبیرونی امداد کی تلاش میں رہی ہے۔ اس سے جو خارجہ پالیسی ابھری وہ روایتی طور پر باہم متصل چار پہلوئوں پر مشتمل ہے:امریکہ کے ساتھ اتحاد، خلیجی ممالک کے ساتھ سرپرستی کا رشتہ جو امریکہ کے ساتھ مشترکہ اتحاد سے مضبوط ہوا،چین کے ساتھ 2015تک کھوکھلی دوستی، اور افغانستان اور ایران کے ساتھ پریشان کن تعلقات۔ لیکن اب تک بھرم کی دھجیاں بکھر چکی ہیں ۔ پاکستان اپنے روایتی حلیفوں کے درمیان الجھن کا شکار ہے ۔ ایک طرف موجودہ مالی مفادات تو دوسری طرف مستقبل کا عالمی نقشہ ہے جس میں چین روس اور مغرب کے درمیان رخنہ نمودار ہوسکتا ہے۔ اس قطبی دنیا میں اپنا بچائو کرنےکیلئےپیچیدہ اور مدبرانہ سفارتی مہارت کی ضرورت ہے ۔
نئی حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ سب سے پہلے تو 2018-2022 کے فسطائی دور کو ایک ماڈل کے طور پر استعمال کریں کہ کیا نہیں کرنا۔سفارت کاری میں نعرے بازی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہمہ وقت بحث و تکرار، تنقید اور مایوسی کا اظہار نہ کریں۔ جن عہدوں پر مہارت درکار ہے ، وہاں عامیانہ صلاحیتوں کے افراد تعینات نہ کریں۔ فتح حاصل کرنے تک فتح کا اعلان نہ کریں۔ سب سے اہم بات:خارجہ پالیسی کو ملک میں سیاسی مفاد کے حربے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے ۔ تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اول:دفتر خارجہ میں اعلیٰ عہدوں پر انتہائی قابل افراد کو تعینات کریں۔ دوئم: پاکستان کے مفادات کا غیر جذباتی انداز میں جائزہ لیں اور، جیسا کہ جے ایل گیڈیس کا کہنا ہے ، زمین پر ایسی بنیاد استوار کریں جو قائم رہے ۔اس کا مطلب ہے چین کے ساتھ اسٹرٹیجک اور اقتصادی تعلقات کو گہرا کرنا اور اس دوران امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا۔ سوئم: اپنے محسنوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہنر مندی، صبر اور احتیاط سے از سرنوتشکیل دیں اور نئے دوست بنائیں۔ چہارم :خارجہ تعلقات اور سلامتی کے تقاضوں کے درمیان جدلیاتی توازن قائم کریں۔ پنجم: خطے کو اقتصادی طور پر کھولنے کیلئے مستقل کوشش کرتے رہیں۔ششم:دفتر خارجہ کو 21ویں صدی کی ایک تنظیم کے طور نئے سرے سے تشکیل دیں ۔ اسے ایسی تنظیم بنائیں جس کے ڈی این اے میں معاشی مفادات، جمہوری اقدار اور ابلاغ شامل ہو۔ہفتم:سفارت کاروں کو کام کرنے کیلئےمناسب وسائل فراہم کریں۔
آخر میں، آنجہانی ہنری کسنجر سے طاقت کے خلاف طاقت کو متوازن کرنے، سفارت کاری کو بھرپور طریقے سے چلانے اور روایتی تعصبات اور فرسودہ جذباتی نعروں کی بجائے قومی مفاد کی پیروی کرنے کا فن سیکھیں۔ عزم اور انتھک محنت کے ساتھ ہم پاکستان کی خارجہ پالیسی کو دنیا میں امن کا مینار اور پاکستانی عوام کیلئے خوشحالی کا پیامبر بنا سکتے ہیں۔ تھامس پین ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ’’ دنیا میں دوبارہ سفر کا آغاز کرنا ہمارے بس میں ہے۔‘‘