خواتین کے حوالے سے عالمی سطح پر منائے جانے والے"ویمن ڈے"کی بابت سوچتا ہوں کہ خواتین کو عزتوں کی رفعتوں پر کس نے فائز کیا؟
نبی کریم حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کائنات میں جلوہ افروز ہوئے تو دنیا تباہی کے دہانے پر تھی کسی رشتے کا پاس تھا نہ خیال ہرکوئی ہوس دنیا اور ناجائز لذتوں کے حصول کے لیے ایک دوسرے کا خون تک بہانے سے گریز نہیں کررہا تھا جہاں معاشرے میں دوسری برائیاں عام تھیں وہاں خواتین کی حالت بھی خستہ اور شکستہ تھی تو نبی مہربان حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی عفت مآبیوں کو دوام بخشا اور یہ
حقوق نسواں کیا ہیں؟عورتوں کو حقوق تو اسلام نے دئیے نبی مکرم حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کو وجہ رحمت قرار دیا بیوی کو گھر کی مالکہ بنایا اور ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی بہن کی پرورش کرنے والے بھائی کو بھی جنت کی بشارت دی گئی۔ اسلام سے قبل کمزور طاقتور کے زیر نگیں تھا جن میں خواتین بھی شامل تھیں اسلام ہی تو خواتین کے حقوق کی درخشاں روایات کا امین ہے جس نے سماجی۔ معاشرتی۔مذہبی۔قانونی دیگر حقوق کی ضمانت دی ہے عورتوں کا استحصال در حقیقت اسلام نے ہی ختم کیا اور عورت کو قابل تعظیم ٹھہرایا بلکہ بعض حالتوں میں عورت مردوں سے زیادہ قابل احترام ہیں انہیں فوقیت حاصل ہے اور تو اور وراثت سے عورتوں کو حقوق ملے خواتین سے حقارت آمیز روئیے تو غیر مسلموں نے رکھے جن میں بھارت سر فہرست ہے اور یورپ کی خواتین کے احوال بھی سب کے سامنے ہیں کہ وہاں خواتین برائیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکی ہیں۔
ہماری تہذیب تو خواتین کی عصمتوں کی پاسدار ہے ہمارے پاکستانی معاشرے کی اس خاتون کا سچا واقعہ یاد آگیا جو نگاہیں جھکائے کنویں میں جا گری تھی۔ گھر سے نکلی کنویں سے پانی لینے جانے والی اس خاتون سے جب پوچھا کہ وہ کنویں میں کیسے گری؟ تو اس نے بتایا کہ ہمارے بڑوں نے ہماری تربیت کی ہے ہمیں تعلیم دی ہے کہ بیٹیاں گھر سے نکلیں تو نظریں نیچی رکھتی ہیں یوں نظر جھکائے وہ گھر سے نکلی کنویں تک پہنچی اور اس میں جا گری یہ ہے ہماری روایات ہماری اقدار ہمارا کردار اور معیار دنیا خواتین کا کوئی دن کیا منائے گی کہ خواتین کا سب سے بڑا محافظ اسلام ہے۔ پاکستانی خواتین نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں لیکن انہوں نے اپنے کردار کو ایسا پختہ کردیا ہے کہ دنیا اس پر ناز کرے گھر سے باہر نکل کر اپنے حق کےلئے احتجاج کرنا تو آگ کو ہوا دینے کے مترادف ہے، عورت تو حیا کا مرقع ہے جسے اپنا گھر دنیا بھر سے عزیز ہوتا ہے اور "ویمن ڈے" منانے والے عورت کو گھر سے بازار تک لے آئے ہیں۔
مہاتما بدھ نے اپنے بھگتوں کو تلقین کی کہ عورت سے دور رہنا۔ اور اپنی عورتوں کو اپنا دوست سمجھئے ان پر یقین رکھئے۔
مہاتما بدھ نے جو پیش گوئی کی کہ ”عورتوں کو جماعت میں شامل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پانچ سو سال کے اندر اندر لوگ مذہبی ضوابط کو بھول جائیں گے اور دنیا میں ویمن ڈے منانے والی خواتین کی باقاعدہ جماعتیں ہیں گروہ ہیں اور گروپس میں تقسیم یہ خواتین میرا جسم میری مرضی کا نعرہ مستانہ لگا چکی ہیں اور اس نعرے نے مشرقی عورت کو لغزشوں کے ایسے راستوں پر ڈال دیا جہاں سے لوٹنا محال ہے اسلام پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کو حقوق دئیے پھر ہم کہاں بھٹک رہے ہیں اور کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ اسلامی تاریخ میں خواتین نے بہترین تجارت کی ہے ہماری مشرقی تاریخ میں خواتین نے قائدانہ کردار ادا کئے اور کررہی ہیں تو اس سے بڑھ کر کیاہو؟ ۔
آپ مغربی معاشرے کی خواتین کے حالات جانئے کہ جہاں عورتوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے جہاں شادی ایک ایگریمنٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی جہاں سکول جاتی بچیاں اپنی حدوں سے تجاوز کر بیٹھتی ہیں اور اس پر کوئی ملامت یا ندامت بھی نہیں جہاں خواتین اخلاقی گراوٹوں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں جہاں بیویاں اپنے بوائے فرینڈز سے طمانیت پاکر مطمئن ہوتی ہوں اور شوہر کی انانیت بیوی کی طمانیت میں جل کر راکھ ہو جاتی ہے اس لئے "ویمن ڈے"آٹھ مارچ کے ایک روز پر موقوف نہیں ہے کہ اسلامی تاریخ کے اول روز سے عورتیں لائق تکریم ہیں انکے حقوق مقدم ہیں یہ افضل ہیں اور معاشرے کی اہم ترین رکن ہیں۔
بہکے ہوئے معاشروں کی خواتین اپنے حقوق کے لیے باہر آگئی ہیں کہ انکے معاشرتی رویوں نے انہیں گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن خواتین کو حقوق جلسے ریلیوں سے نہیں ملتے بلکہ جلسے ریلیاں تو اور بھی بگاڑ کا باعث بن سکتے ہیں خواتین کے حقوق کے لیے کسی بھی معاشرے کو خواتین کے رشتوں کا پاس کرنا ہوگا معاشروں کو بہکنے سے بچانا ہوگا تب ہی خواتین کی مجموعی حالت بہتر ہوگی جلسے ریلیاں تو اکا دکا واقعات اور انفرادیت تک محدود ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)