• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’قلم ہوئے سر، قلماں ٹُٹیاں… سینے دے وِچ بلماں ٹُٹیاں…عزّت دی ایس ٹہنی نالوں… عذرا، بانو، سلمیٰ ٹُٹیاں…تاں جا کے ایہہ موقع بنیا…پاکستان کوئی سوکھا بنیا؟‘‘ یہ کہہ کر وہ بابا خاموش ہو گیا۔ پھرجب مَیں نے اُس بوڑھے درویش سے پوچھا کہ ’’بابا !تم موت سے کیوں نہیں ڈرتے؟ موت کے بعد روزِ قیامت آئے گا۔‘‘ تو مسکرایا اور بولا، ’’مَیں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ مَیں نے اُس دن موت بھی دیکھی ہے اور قیامت بھی۔ مُجھے قیامت اور موت سے مت ڈراؤ۔ تم نے پاکستان کی خاطر کی گئی ہجرت نہیں دیکھی۔ یہ انسانی تاریخ کی سب سے خُوں ریز ہجرت تھی۔ 

تاریخ میں موجود زخموں کے ذخیرے سے اگر تحریکِ پاکستان کے دوران مسلم کُش فسادات اور مسلمانوں کے خُون سے کھیلی گئی ہولی نکال دی جائے، تو اس کا دامن مفلس کی جھونپڑی کی طرح خالی خالی سا لگنے لگے گا۔‘‘ پھر اُس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور سرگوشی کے انداز میں بولا کہ ’’جب کبھی اس پاک سرزمین سے کوئی شکوہ زباں پر آنے لگے، تو اُن ویراں کنوؤں کو جا کر ضرور دیکھنا، جو اُن کنواری لڑکیوں سے بَھرے پڑے ہیں، جنہوں نے اپنی عزّتیں بچانے کے لیے ان میں چھلانگ لگا کر اپنی قیمتی جانیں نچھاور کر کے عِصمتیں بچا لی تھیں۔ بیٹا! آزادی ثمر ہے ان بیش بہا قربانیوں کا۔‘‘ 

پھر وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا کہ ’’اُس دن تو شہادتوں کی بارش ہو رہی تھی۔ دریا کا پانی نظر نہیں آتا تھا۔ صرف لاشیں ہی لاشیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اُس دن تو کئی ایسی ریل گاڑیاں بھی وطنِ عزیز پہنچی تھیں کہ جن میں ایک بھی زندہ شخص نہ تھا، صرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ اور اُن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ کلمہ گو تھے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں دُشمن بھی گھٹیا اور کم ظرف ملا تھا۔ 

اُس کے گھٹیا پن کا اندازہ تم اس بات سے لگا سکتے ہو کہ ہجرت کے دوران راستے میں آنے والے کنوؤں میں ہندوؤں نے زہر ڈال دیا تھا، جس سے ہزاروں پیاس سے بلکتے بچّے اور مرد و زن شہید ہو گئے۔‘‘ پھر اُس نے سُرخ آنکھوں سے مُجھے دیکھا اور بولا، ’’گھبرانا نہیں، میری ماں نے بُریدہ ہاتھوں سے اس مُلک کے لیے دُعا کی تھی۔ دشمن نے اُس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے تھے۔ پاکستان بُریدہ ہاتھوں کی دُعا ہے اور بُریدہ ہاتھوں کی دُعا ’’کُن‘‘ بن جایا کرتی ہے۔‘‘

بوڑھا درویش بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔ ابھی دو تین برس پہلے ہی کی بات ہے کہ جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، دہلی میں ایک نوجوان نے اسٹیج پر آ کر علی الاعلان قائد اعظم محمّد علی جناحؒ کی بصیرت کو سلام پیش کیا۔ پھر یہ بھی ایک آفاقی و تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام دب کر اور نہ مسلمان محکوم رہ سکتے ہیں۔ جس شب ملائکہ آسمان سے اُتر کر زمین پر پھیل جاتے ہیں، اُس مبارک رات کو کلمے کی بنیاد پر ایک مُلک وجود میں آیا۔ پاکستان کا قیام، جس نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا، وہ دو قومی نظریہ ہے اور اس نظریے کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یعنی جب سورۂ اخلاص اور سورۂ کافرون نازل ہوئی تھیں اور اللہ کے محبوب حضرت محمدﷺ نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور ’’تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین‘‘ کا اعلان کیا تھا۔ یعنی ہر دو اقوام اپنے ادیان کو سنبھال کر رکھیں۔ 

یہاں قرآنِ پاک کے دل یعنی سورہ ٔرحمٰن کی آیت نمبر 19اور 20کا(ترجمہ :اُس نے دو سمندر بہائے کہ دیکھنے میں ہوں ملے ہوئے اور ہے اُن میں روک کہ ایک دوسرے پر بڑھ نہیں سکتا )ذکر کرنا بھی ضروری ہے، جن میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے سمندر کا ذکر کیا، جس میں دو رنگوں اور دو ذائقوں کا پانی برابر چلتا ہے لیکن درمیان میں ایک الوہی برزخ یعنی پردہ ہے، جو اکٹھے چلتے ہوئے دونوں پانیوں کو ملنے نہیں دیتا۔ 

دو قومی نظریہ اُسی دن وجود میں آ گیا تھا۔ باقی ہر کسی نے ہر دَور میں اپنی مرضی کی تشریح کی اور بہت سی من چاہی کاوشوں کے باوجود اسلام کے ساتھ باطل کو مدغم نہیں کیا جا سکا۔ ویسے بھی اسلام، دوئی کا قائل نہیں اور اسلام کی اصل ہی توحید ہے اور یہی معاملہ برِصغیر کے مسلمانوں کودرپیش تھا۔ یہاں بھی نئی نئی اصطلاحات ایجاد کی گئیں اور بھانت بھانت کی بولیاں سُننے کو ملتی رہیں، مگر ہندو، مسلم اتحاد کا ہر نظریہ بالآخر اپنی موت آپ مَر گیا۔

تقسیمِ ہند کا انکار کرنے اور پاکستان کے خاتمے کی ناپاک خواہش رکھنے والوں کے لیے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک مجذوب و درویش، صُوفی برکت علی لدھیانوی کی اس پیش گوئی کا ذکر کیے دیتا ہوں کہ ’’وہ دِن دُور نہیں کہ جب پاکستان کی ’’ہاں‘‘ اور ’’نہ‘‘ میں اقوامِ عالم کے فیصلے ہوں گے۔ پاکستان کی 76سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ایک نہیں بلکہ کئی بار ہو چُکا ہے۔ ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی حُکّام کے پے در پے فون صرف پاکستان سے ’’ہاں‘‘ کہلوانے کے لیے آتے رہے۔ عالمی طاقتیں گواہ ہیں کہ پاکستان نے ہامی بھری، تو کارروائی عمل میں لائی گئی اور تب تک دُنیا کا نظام رُکا رہا۔

تحریکِ پاکستان صرف سیاسی جدوجہد ہی نہیں، بلکہ ایک رُوحانی تحریک تھی، جس کی واضح مثال علاّمہ شبّیر احمد عثمانی کا آپ ﷺ کے حُکم پر حضرت قائدا عظم سے ملاقات کرنا ہے۔ علاّمہ صاحب کو حُکم ملا کہ ’’ہمارا ایک اُمّتی آپ سے ملنا اور رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہے، آپ بمبئی جا کر اُس سے ملاقات اور اُس کی رہنمائی کریں۔‘‘ اسی لیے فرمانِ قائد ہے کہ ’’یہ مشیتِ ایزدی ہے۔ یہ محمّد مصطفیٰ ﷺ کا روحانی فیضان ہے۔‘‘اسی لیے تو ایک ناممکن کام ممکن ہوا۔ ہندو بنیے کی تمام تر مکاریوں کے باوجود مفکرِپاکستان اور شاعرِ مشرق علاّمہ محمّد اقبال کا سندیسہ سچ ثابت ہوا کہ؎ میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جدھر سے…میرا وطن وہی، میرا وطن وہی ہے۔

بعض اوقات تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اتنا بڑا ایجنڈا محض چندہ جمع کر کے کیسے مکمل کر لیا گیا۔ حیرت ہے کہ گہرے سمندر میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے اچانک ایک گوہرِ نایاب ہاتھ آتا ہے۔ بلوچستان کی انتہائی خُوب صُورت اور معدنی وسائل سے مالا مال سرزمین کے سپوت، خان آف قلاّت، میر احمد یار خان نے قائدِاعظمؒ کو ان کے ہم وزن چاندی پیش کی اور اِسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی پوری ریاست کو پاکستان میں شامل کر دیا۔ بلوچستان، بنگال، شمال مغربی سرحدی صوبہ اور سندھ سے تعلق رکھنے والے اس طرح کے کئی گُہر قائد اعظم کو میسّر تھے۔ 

جہاں تک تعلق ہے پنجاب کا، تو یہاں بھرپور سیاسی شعور اور سرگرمی دیکھنے کو ملتی تھی۔ البتہ اُس وقت بھی اور آج بھی کچھ ایسے نام نہاد دانش وَر پائے جاتے ہیں کہ جو تقسیمِ برِصغیر اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف سوالات اُٹھاتے رہتے ہیں۔ چمگادڑ کو جلوۂ آفتاب نظر نہ آئے تو اس میں سورج کا کیا دوش؟ایسے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے بہتر ہے کہ اُنہیں کشمیر اور بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی حالتِ زار کی حقیقی تصویر اور بابری مسجد کا سانحہ اور مسلم کُش فسادات کا آئینہ دکھایا جائے۔

قیامِ پاکستان کی داستان قربانیوں کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی، کیوں کہ آزادی اپنے تئیں کچھ نہیں، بلکہ قربانیوں کا ثمر ہوا کرتی ہے۔ بے وطن ہونے کا دُکھ کوئی فلسطینیوں سے پوچھے۔ قیامِ پاکستان کے لیے شاید تاریخِ انسانی کی دوسری بڑی ہجرت کی گئی۔ لوگ اپنے مال و اسباب ہی سے محروم نہیں ہوئے بلکہ لاکھوں بچّے شفقتِ پدری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ 

اَن گنت خواتین کے سہاگ اجڑے، اَن گنت عِصمتیں لُٹیں اور نہ جانے کتنے ضعیف، کانپتے بوڑھے اپنے جوان بیٹوں کے لاشے اٹھا کر پاک سرزمین کو چومتے ہوئے اس میں داخل ہوئے۔ اس آزاد ملک کی قدر وہی جان سکتے ہیں، جنہوں نے اپنے گنوائے ہوں، اپنے جوان بیٹوں کے جنازوں کو کندھا دیا ہو اور اپنی جوان بیٹیوں کی عِصمت دری کے بعد خون آلود لاشوں کو دفنایا ہو۔

سنڈے میگزین سے مزید