مولانا امداد الحق بختیار قاسمی
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں، ان میں سب سے افضل واشرف انسان کو بنایا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ انسان سے بہت محبت رکھتا ہے، وقفے وقفے سے ایسے مواقع انسان کو دیتا ہے، جس سے یہ اللہ سے زیادہ سے زیادہ قریب ہو سکے، اس کی رحمتوں کو سمیٹ سکے اوراس کی نعمتوں کا مستحق ہوسکے، اپنی کوتاہیوں کو معاف کرا سکے اور اپنے نامہ اعمال کو پاک وصاف کرا سکے، رمضان المبارک کا مہینہ ان تمام مواقع میں سب سے اعلیٰ حیثیت رکھتا ہے، صرف اس ایک مہینے میں اللہ تعالیٰ مختلف انداز سے رحمتوں کی برسات کرتا ہے، کبھی سحر کے ثواب کے اعتبار سے، تو کبھی افطار کی فضیلت کے نام پر، کبھی روزوں کے انعام کی شکل میں ، تو کبھی تراویح کے اجر کے طور پر، کبھی فرائض کا ثواب ستر گنا بڑھا کر، تو کبھی نوافل کو فرائض کی حیثیت عطا کر کے، کبھی سحر وافطار کے وقت دعا کی قبولیت کا مژدہ سنا کر، تو کبھی ہزاروں کی تعداد میں جہنم سے رہائی کا پروانہ تھما کر، اللہ تعالیٰ کے یہاں رمضان کا کتنا بڑا مقام ومرتبہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگانا مشکل نہ ہوگا کہ اس نے اپنے کلام کے نزول کے لیے اسی ماہ مبارک کا انتخاب کیا۔
اس مہینے کے انتظار میں ایک سال قبل سے ہی جنت کو آنے والے رمضان کے استقبال میں سجانا شروع کردیا جاتا ہے، نیز اس ماہ مبارک کی خوشی اور شادیانے کے طور پر جنت اپنے تمام دروازوں کے ساتھ کھول دی جاتی ہے۔ جب یہ مہینہ آتا ہے تو نہ صرف زمین پر رہنے والے انسانوں کے ماحول میں ایک خوش گوار تبدیلی واقع ہوتی ہے، بلکہ آسمان پر بھی اہتمام واحترام اور خوشی ومسرت کا عالم ہوتا ہے، فرشتوں اور جنت کے مکینوں کے درمیان اس مبارک مہینے کی وجہ سے خوشیوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے اس مقدس اور بابرکت مہینے کے پیش نظر سرکش شیاطین کو قید کر لیا جاتا ہے، اسی کی تیاری کے طور پر جہنم کے تمام دروازے پورے مہینے کیلئے بند کر دئیے جاتے ہیں۔
اس طرح ایک پاک وصاف ماحول انسان کو فراہم کیا جاتا ہے،تاکہ وہ اس ایک مہینے میں اپنے مقصد کے حوالے سے ان سب کی تلافی کر سکے، جو گیارہ مہینے میں چھوٹ گئی ہیں، وہ سب حاصل کرسکے جو وہ چاہتا ہے، اپنے خالق و مالک کی بارگاہ اور اس کی نظروں میں قربت کا مقام بلند حاصل کرسکے اور دنیا میں آنے کے اپنے مقصد کو بڑی حد تک حاصل کر سکے۔
روایات سے پتا چلتا ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ آنے سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺکے یہاں اس کے استقبال کی تیاریاں اس طرح ہوتیں کہ آپ شعبان کے تقریباً پورے مہینے کے روزے رکھتے،تاکہ رمضان کے روزوں کا لطف زیادہ سے زیادہ حاصل ہو، آپﷺ صحابہؓ کو خوش خبری سناتے کہ ایک مبارک مہینہ آنے والا ہے، پھر اس کے فضائل ومناقب بیان فرماتے، اس کے فوائد ومنافع سے آگاہ فرماتے، اس میں غفلت اور سستی نہ برتنے کی وصیت فرماتے، اس سے محروم رہنے والے لوگوں پر افسوس کا اظہار فرماتے۔
خود کا یہ عالم ہوتا کہ آپﷺ کی تلاوت میں اضافہ ہوجاتا،حتیٰ کہ جبرائیل امین ؑکے ساتھ قرآن کا دور ہوتا، آپﷺ کی نمازوں کی کیفیت بدل جاتی، آپ ﷺکی سخاوت ہوا کی رفتار سے چلتی اور دریا کی رفتار سے بہتی، کبھی پورے مہینے کیلئےمسجد میں معتکف ہوجاتے، کبھی بیس دن کےلیے، اخیر عشرہ کا اعتکاف تو آپ ﷺنے پوری زندگی بڑے اہتمام سے کیا ہے۔
رمضان المبارک میں آپﷺ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا، زیادہ سے زیادہ عبادت، تلاوت اور دوسرے کار خیر کی فکر ہمیشہ آپ ﷺکے قلب ودماغ پر چھائی رہتی، دعاؤں کا اہتمام بڑھ جاتا، راحت وآرام اور بستر کو الوداع کہہ دیا جاتا۔ آپﷺ کا رمضان عبادت وریاضت کا ایک مثالی مہینہ ہوتا تھا۔
ایک طرف تو رمضان کا یہ اہتمام واحترام اللہ و رسولﷺ کے یہاں ہمیں ملتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ہر گھڑی اہم اورہرساعت قیمتی ہے، الگ الگ نام اور انداز سے اللہ کی رحمتیں دنیا والوں پر نازل ہوتی ہیں ، ہر لمحہ ایسا ہے، جس کا بے صبری سے انتظار کیا جانا چاہیے اور بھر پور طور پر اس میں موجود بشارتوں اور انعامات کو حاصل کرنے کی جان توڑ کوشش کرنی چاہیے، حتیٰ کہ انسانوں میں اس تعلق سے مسابقے کا جذبہ ہونا چاہیے، ایک دوسرے سے آگے نکل کر زیادہ سے زیادہ اور اچھی سے اچھی عبادت کرنے کے جذبات ہونے چاہییں، لیکن افسوس کہ اکثر لوگ نہ صرف یہ کہ ان قیمتی اوقات سے غافل رہتے ہیں، بلکہ بعض تو ایسے مبارک لمحات میں بھی نفس اور نفسانی خواہشات کی قید وبند میں جکڑے رہتے ہیں، اپنے آس پاس ایسا ماحول بناتے ہیں کہ کوئی نیکی، کوئی سعادت مندی اور کوئی ثواب ان تک پہنچ بھی نہ سکے،چنانچہ وہ رمضان المبارک میں بھی اپنی بری عادتوں اور اپنے غلط معمول سے باز نہیں آتےگویا ان کا شیطانی نفس اللہ تعالیٰ کی رحمتوںکے آگے اپنی نفسانی اور شیطانی چھتری تان کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ کہیں کوئی رحمت اس پر پڑ نہ جائے۔ معاذ اللہ!
چنانچہ مرد و خواتین، نوجوان بچے اور بچیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے، جو رمضان کے مقدس اوقات بھی ٹی وی یا موبائل کی نذر کر دیتے ہیں، رمضان کے مبارک مہینے میں بھی موبائل کی لت ان سے نہیں چھوٹتی، اس طرح وہ رمضان کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں اور بجائے سعادت اور نیکی کے اپنے حصے میں بد بختی، بد نصیبی اور محرومی جمع کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے تعلق سے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: بہت سے روزےدار ایسے ہیں جنہیں بھوک کی شدت کے سوا روزے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ (سنن ابن ماجہ)
ہمارے بہت سے مسلمان تاجر ایسے ہیں ، جن کی تجارت رمضان المبارک میں بہت چلتی ہے، بعض کیلئے تو یہ سالانہ سیزن ہوتا ہے، وہ اپنی سالانہ آمدنی کا بڑا حصہ اسی مہینے میں کماتے ہیں لہٰذا ان کی توجہ رمضان کی عبادتوں سے زیادہ اپنی تجارت کے فروغ اور زیادہ سے زیادہ تجارت کرنے پر رہتی ہے، حتیٰ کہ بعض تو ایسے بھی ہیں ، جو اپنے کاروبار کے چکر میں تراویح نہیں پڑھتے، بعض نوافل کا اہتمام نہیں کرتے، بعض قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتے یا بہت معمولی کرتے ہیں اور بعض تو ایسے ہیں کہ وہ روزے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ، اللہ اکبر! یہ کیسی محرومی کی بات ہے کہ رمضان جیسا متبرک مہینہ ایک مسلمان بغیر روزے کے گزارے! آخر ایک ایمان والا اسکی ہمت کیسے کرسکتا ہے!
یقیناً دنیا داروں کیلئے بھی رمضان کا مہینہ ایک سیزن ہے، پیسے کمانے، مال بڑھانے اور دنیا جمع کرنے کا موقع ہے اور اللہ کے نیک اور با توفیق بندوں کیلئے بھی یہ مہینہ ایک سیزن اور نیکیوں کا موسم بہار ہے، جس میں وہ نیکیوں کا انبار جمع کرتے ہیں ، تلاوت، تراویح، روزہ اور دیگر عبادات میں اپنی محنت ومشقت اور اپنا وقت خرچ کرکے ایسی تجارت کرتے ہیں، جس میں تاجر ہمیشہ سرخ رو ہوتا ہے اور بڑے فائدے کا حق دار بن جاتا ہے۔
ایک دنیا کیلئےتجارت ہے اور ایک آخرت کیلئے ہے، دونوں کو نفع ہوتا ہےلیکن دونوں میں زمین وآسمان جیسا فرق ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کردیا ہے: ترجمہ: مال واولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں اور جو نیکیاں ہمیشہ رہنے والی ہیں، آپ کے رب کے نزدیک ان کا ثواب بھی بہتر ہوگا اور ان کے ساتھ وابستہ توقع (اور اس کا نتیجہ)بھی اچھا ہوگا۔ (سورۃ الکہف)
بہت سے لوگ رمضان جیسے سنہرے موقع کو منظم نہیں کرتے، پہلے سے اس کی تیاری نہیں کرتے، رمضان میں پیش آنے والی ضرورتوں کا پہلے سے انتظام نہیں کرتے، عید کے انتظامات بھی قبل از وقت نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں وہ رمضان المبارک کا بڑا حصہ بازار اور خرید وفروخت میں ضائع کردیتے ہیں، سحر وافطار کے سامان کے انتظام میں کافی وقت بازار میں گزارتے ہیں ، اور پھر نصف رمضان کے بعد تو مساجد کی رونق ماند پڑجاتی ہے اور بازار کی چمک دمک اور چہل پہل میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔
بعض خواتین تو اخیر عشرہ کی راتیں بازار میں ہی گزارتی ہیں ،جبکہ اخیر عشرہ میں اللہ کی رحمت، عنایت، توجہ اور انوار وبرکات کا نزول پہلے سے زیادہ ہونے لگتا ہے اور اس قیمتی عشرہ کو ہمارا معاشرہ بازار بازی کی نذر کر دیتا ہے، اللہ کی رحمت ہماری طرف متوجہ ہے اور ہم بازار کی طرف کتنے افسوس کا مقام ہے! کاش ہمارے اندر عقل اور تمیز ہوتی! رمضان کی مقدس ساعات بدترین جگہ میں ہم گزارتے ہیں، چنانچہ بازار کے تعلق سے اللہ کے نبیﷺ کا مبارک ارشاد ہے: اللہ کے نزدیک سب سے بہترین جگہ مسجدیں ہیں اور سب سے بد ترین جگہ اللہ کے نزدیک بازار ہیں ۔ (صحیح مسلم)
اس مبارک مہینے کی ناقدری کرنے والے کو کبھی حضرت جبرائیل ؑ نے اس طرح بد دعا دی: ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا، پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی، جس پر آپ ﷺنے آمین کہی، کبھی آپ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا: بد بخت ہے وہ شخص جو اس ماہ مبارک میں بھی باران رحمت سے محروم رہا۔ (کنز العمال) کہیں آپﷺ نے فرمایا: جس کی رمضان میں مغفرت نہ ہوسکی تو پھر کب ہوگی! (مصنف ابن ابی شیبہ)
رمضان المبارک کے مہینے میں بھی جو لوگ گناہوں میں ملوث رہتے ہیں ، ان کے بارے میں اللہ کے نبی کی وعید ہے کہ اگلے ایک سال تک فرشتے ان پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔(کنزالعمال)ایک روایت میں اللہ کے نبی ﷺکا فرمان ہے: میری امت اس وقت تک ذلیل وخوار نہیں ہوسکتی، جب تک وہ روزوں کا اہتمام کرتی رہے۔ (کنز العمال)کہیں رمضان کے نا قدروں کے بارے میں رحمۃ للعالمین ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگ بھوکے پیاسے رہیں ۔ یعنی اللہ کے یہاں ان کے اس عمل کی کوئی وقعت اور اہمیت نہیں۔
لہٰذا رمضان المبارک کے موقع کو ہمیں غنیمت سمجھنا چاہیے، اس کی ایک ایک ساعت اور گھڑی کی ہم قدر کرنے والے بنیں ، روزہ، تراویح اور اعتکاف کے ساتھ ساتھ تلاوت اور دیگر عبادتوں کا بہت اہتمام کرنا چاہیے، اس مقدس مہینے میں ہر طرح کے گناہ سے پرہیز کرنا بےحد ضروری ہے، اپنے آپ کو رمضان کی مخصوص عبادتوں کیلئے زیادہ سے زیادہ فارغ کر لینا چاہیے، تجارت اور کاروبار میں کم سے کم وقت خرچ کرنا چاہیے، خرید وفروخت بالکل محدود کردینی چاہیے، ٹی وی، موبائل اور بازار میں وقت گزارنے سے بالکل دور رہیں، تاکہ رمضان کی رحمتیں ، برکتیں اور نیکیاں زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں اور خدا نخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم رمضان کے محروم لوگوں میں شامل ہوجائیں، بجائے سعادت مندی کے بد بختی ہمارے ہاتھ آئے، بجائے رحمت الٰہی کے فرشتوں کی لعنت ہم پر برسے اور نہ جانے ان سب کی تلافی کےلیے اگلا رمضان ملے یا نہ ملے!