• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8 فروری کے انتخابات کے نتائج پر طبع آزمائی جاری ، مسلم لیگ ن کی غیر مستحکم حکومت وجود پا چکی ہے ۔ سوال چار سُو،کیا 5 سال کی مدت بھی پوری کر پائیگی ؟ مسلم لیگ ن سے بھلا یہ کریڈٹ کون چھین سکتا ہے، ریاست کو بچانے کیلئے ایک بار پھر بھاری قیمت ادا کرنےکو تیار ہے ۔ اس سے پہلے جب حکومت بنائی تو 17 جماعتیں مع اسٹیبلشمنٹ حصہ دار تھیں ، بد قسمتی سے سیاسی قیمت اکیلے مسلم لیگ ن نے ادا کی ۔ سیاسی جماعتوں کی طاقت اسکی پبلک سپورٹ ، ایسوں سے کیا گلہ ، تازہ بہ تازہ پبلک سپورٹ قربان کر کے بھی سبق نہیں سیکھا ۔

ملکی سیاست میں زرداری صاحب کی سیاست کی سحر انگیزیوں نے مبہوت کر رکھا ہے ۔ پچھلے 36 سال میں دو ہی ٹھکانے پسند فرمائے ، ’’ حکومت یا پھر جیل ‘‘۔ اپنی جادوئی حکمت عملی سے دوسری دفعہ صدر بننے میں کامیاب،2 صوبائی حکومتیں مع اہم آئینی عہدے بھی اُچک لئے۔ ایک بار پھر’’ناکامی کا بارِ ثبوت‘‘ مسلم لیگ ن پر ڈال دیا۔ موجودہ حکومت کی ناکامی نے پیپلز پارٹی کا بال بیکا نہ نہیں کرنا۔ ستم ظریفی! اتحادی حکومت کی رخصتی کے چند ہفتوں بعد ہی تمام توپوں کا رُخ مسلم لیگ ن کی طرف موڑ دیا ، حتیٰ کہ عمران خان کو نظر انداز رکھا۔

20 اکتوبر کو نواز شریف واپس آئے تو بہت کچھ کُھو چکے تھے ۔ جو پبلک سپورٹ چھوڑ کر گئے تھے، واپسی پر لاموجود ،’’ شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد ، جس مال کے تاجر تھے وہ مال ندارد ‘‘ ۔ 20 اکتوبر کو بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا تو زبان زدِ عام ،’’نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بننے سے اب کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔ کہنے میںحرج نہیں ، نواز شریف کا چوتھی بار وزیراعظم بننے کا پلان آصف زرداری نے سبوتاژ کیا۔ بلاول بھٹو کا ڈنکے کی چوٹ پر اظہاریہ یہی تو تھا،’’ہم نواز شریف کو کسی صورت چوتھی بار وزیراعظم نہیں بننے دیں گے‘‘۔

اسٹیبلشمنٹ کا حتمی پلان ، عمران خان اور تحریک انصاف کو ہر صورت میں سیاست کا جملہ غیر معترضہ بنانا تھا بصورت دیگر تحریک انصاف کے دانت اور ناخن نکال کر انتخابی میدان میں اترنے دیا جاتا ۔ تفصیل برطرف ، 10 اپریل 2022 یا 9 فروری 2024 تک اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کیخلاف جو تدابیر کیں الٹی پڑیں ، اسکی سیاست مزید توانا ہوئی۔ 8 فروری الیکشن تک پبلک سپورٹ میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ سوشل میڈیا کی پیالی میں انصافیوں نے سونامی برپا کئے رکھا ۔ میرے مطابق آصف زرداری کی سیاست مخصوص حکمتِ عملی کے تابع رہی ہے ۔ سندھ کارڈ استعمال نہ کرنیکا تاثر دیکر اپنی اہمیت اُجاگر رکھی ۔حقیر رائے،’’ پاکستان کھپے‘‘ کا جب نعرہ لگایا تو سندھ کارڈ استعمال نہ کرکے یہی احسان تو جتلایا تھا۔ کمال لیڈر ہے ، بہ یک وقت پاکستان اور سندھ کے مفادات اکٹھے لیکر چل رہا ہے۔ بلاشبہ ، وفاق اور سندھ کے مفادات جب ٹکراتے ہیں تو دھڑلے سے سندھ ترجیح بنتاہے ۔

بد قسمتی کہ پنجاب اورKP میں اسٹیبلشمنٹ مخالف رائے عامہ نے اَت مچارکھی تھی ۔ صوبہ بلوچستان پہلے ہی سے بحُرانِستان ہے۔ شومئی قسمت کہ صوبہ سندھ کے چین و سکون کا انحصار پیپلز پارٹی پر منحصرہے ۔آغاز میں، اسٹیبلشمنٹ نے ایک موقع پر پیپلز پارٹی کو صوبہ سندھ میں بھی محدود کرنیکا سوچا ہوگا ۔ مسلم لیگ ن نے یقینا ًاسٹیبلشمنٹ کی اشیربادپر اپنے سیاسی جوڑ توڑ کا آغاز صوبہ سندھ ہی سے کیا۔ پلک جھپکتے MQM اور GDA سے پینگیں بڑھائیں۔ زرداری صاحب ٹھہرے گھاگ، فوراً بھانپ گئے ۔اسٹیبلشمنٹ اور زرداری صاحب میں باہمی بد اعتمادی 36 سال سے موجود ہے۔ ایسے زمینی حقائق کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کو کئی بار پہلے بھی شیشے میں اتار چکے ہیں ۔ آصف زرداری نے فی الفور ایسا گیم پلان ترتیب دیا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے پلان میں ردوبدل کرنے پر مجبور ہو گئی۔ بذریعہ بلاول جارحانہ تقاریر میں بظاہر نواز شریف نشانے پر ، واضح طور پر پیغام اسٹیبلشمنٹ نے وصول پایا ۔بلاول بھٹو کی متاثر کن انتخابی مہم کا مرکز سندھ کی بجائے باقی 3 صوبے ( خصوصاً پنجاب ) بنے ۔ بلاول بھٹو کی جارحانہ انتخابی مہم نے ہی تو اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ پلک جھپکتے سرفراز بگٹی ، فیصل واوڈا وغیرہ کئی جید رہنما پیپلز پارٹی کو پیارے ہو گئے کہ اسٹیبلشمنٹ کوہر صورت صوبہ سندھ رام رکھنا تھا ۔ نواز شریف کی قربانی پرہی پیپلز پارٹی نے مطمئن ہونا تھا ۔ الیکشن سے چند ہفتے پہلے زرداری صاحب کا ایک فرمائشی انٹرویو دیکھنے کو ملا ، جس میں بلاول کو آڑے ہاتھوں لیا اور قومی حکومت کا اشارہ دیا۔نواز شریف نے گیم پلان بھانپ ضرور لیا مگر نقصان کا ازالہ ممکن نہیں تھا ۔ 8 فروری کے الیکشن میں نواز شریف کی عدم دلچسپی دیدنی تھی ۔ الیکشن میں طوعاً و کرہاً حصہ تو لیا ، آخری دن تک لاتعلقی برقرار رکھی۔ چند جلسے کئے بھی تو شرط لَف کہ’’مجھے اکثریتی مینڈیٹ چاہئے ‘‘ ۔

اسٹیبلشمنٹ کے عمران خان کے معاملات کو بے ہنگم طریقہ سے ہینڈل کرنے سے بھی صورتحال گھمبیر ہو گئی ۔ اسٹیبلشمنٹ کو ضرورت سے زیادہ اپنی شمشیر پر بھروسہ ، بے تیغ بالغ رائے دہی نے 8 فروری کے دن چھکے چھڑا دیئے ۔البتہ! 8 فروری کے انتخابات زرداری صاحب کے فائدے میں رہے ۔ ملک میں دوسری بڑی طاقتور شخصیت کے طور پر سامنے آئے ۔ صد حیف ! مسلم لیگ ن الیکشن 2013 کے مقابلہ میں اپنی آدھی سیٹیں گنوا بیٹھی ۔ انتخابی نتائج کے بعد نواز شریف کی کیا مجبوری کہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت لینا پڑی ۔ نامساعد حالات میں ایک دفعہ پھر ’’ریاست بچانے‘‘ کیلئے رہی سہی سیاست بھی قربان کرنے کو ہیں ۔ جانتے ہوئے کہ شہباز حکومت نے ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رحم وکرم پر رہنا ہے ۔ شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی دونوں کو بیک وقت مطمئن رکھنا ہے۔ آج وفاق اور پنجاب میں حکومت ملنے کے باوجود ، نواز شریف جیسی مضبوط شخصیت سیاست میں’’ غیر متعلق ‘‘ہو چکی ہے ۔

10 ؍اپریل 2022ءتا 9 فروری 2024ء، متحرک وطنی رائے عامہ کثیر تعداد میں عمران خان کے حق میں اور اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بتدریج صف آرا ہوچکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو سہولت کہ حالات کی سنگینی کی جانچ پرکھ کبھی بھی انکی ترجیح نہیں رہی ۔اقتدار کے جوڑ توڑ میں صدر زرداری کی اہمیت مسلمہ ہو چکی ہے ۔ حکومت ، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ سب کو صدر زرداری کی مددچاہئے ہوگی۔ سال 2025ء میں اہم واقعات ہونے کو ہیں ، کیا بعید کہ سال 2026 تک اسٹیبلشمنٹ اور آصف زرداری کے دل سے شہباز حکومت اُتر جائے ۔ کسی بھی موقع پراگر پیپلز پارٹی نے اپنی حمایت واپس لے لی تو اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایک لاینحل صورتحال کا سامنا ہوگا۔آنے والے ہر دن نے مملکت کو غیر یقینی سے دوچار رکھنا ہے۔ جبکہ صدر زرداری اپنی شرائط پر تینوں فریقوں کو دباؤ میں رکھیں گے ۔ حکومت ، اسٹیبلشمنٹ ، عمران خان کے مستقبل کا انحصار ، صدر زرداری کا صوابدیدی اختیار بن چکا ہے ۔ بلاول بھٹو کو وزیراعظم دیکھنے کا خواب شرمندہِ تعبیر ہونے کے قریب ہے ۔ سو باتوں کی ایک بات ،’’ ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘۔

تازہ ترین