• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری سیاسی و سماجی زندگی کو بلاثبوت الزام تراشی کی کھلی چھوٹ نے جس قدرزہر آلود بنادیا ہے اس کے نتیجے میں ہر شخص اپنی عزت آبرو کے حوالے سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اس حقیقت کا ایک غیر معمولی مظاہرہ سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق مقدمے کی حالیہ سماعت کے دوران چیف جسٹس کے ریمارکس کی شکل میں ہوا۔اس معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے عام انتخابات کے چند روز بعد ایک ڈرامائی پریس کانفرنس میں پنڈی کی قومی اسمبلی کی نشستوںپر ہارنے والوں کی شکست کو فتح میں بدلنے کیلئے بذات خود سنگین دھاندلی کرانے کے دعوے کے ساتھ اس کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اس مکروہ عمل میں الیکشن کمیشن کے علاوہ چیف جسٹس کو بھی نہایت غیرذمہ دارانہ طور پر ملوث کیا تھا۔ مبینہ انتخابی دھاندلی کے جرم کی پاداش میں لیاقت علی چٹھہ نے رضاکارانہ طور پر اپنے لیے پھانسی کی سزا کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھی اسی سزا کا مستحق قرار دیا تھا۔انکے بیان میں یہاں تک کہا گیا تھا کہ اس جرم کے ارتکاب کے بعد سے ان کا ضمیر اس قدر بے چین تھاکہ وہ اپنے طور پر ہی پھندہ لگاکر خود کشی کرنا چاہتے تھے اور اپنے گھر میں انہوں نے اس کارروائی کا بندوبست کر بھی لیا تھا لیکن پھر حقائق قوم کے سامنے لانے کو ضروری سمجھتے ہوئے پریس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ لیاقت علی چٹھہ نے اسی موقع پر اپنے منصب سے مستعفی ہونے اور پولیس کو گرفتاری دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس کے بعد وہ چند روز لاپتہ رہے اور پھرالیکشن کمیشن میں یہ بیان ریکارڈ کرایا کہ انتخابی دھاندلی کے الزامات انہوں نے ایک سیاسی جماعت کے بہکانے پر لگائے تھے اور پاکستان سپرلیگ کرکٹ گراؤنڈ میں ان کی پریس کانفرنس محض ایک ڈراما تھی۔ یہی وہ معاملہ ہے جس پر گزشتہ پیر کے روز صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے میڈیا کو توجہ دلائی کہ ملک کے تمام ٹی وی چینلوں نے سابق کمشنر کے اس الزام کو کہ انتخابی دھاندلی میں چیف جسٹس براہ راست ملوث ہیں، کسی تصدیق کی ضرورت محسوس کیے بغیر نشر کردیا۔ ملک کے منصف اعلیٰ نے اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی کہ عالمی سطح پر یہ ایک عام رواج ہے کہ کسی خبر کے نشر ہونے سے پہلے اس کی تصدیق کی جاتی ہے لیکن الزام لگانے والے سابق کمشنر سے کسی صحافی نے یہ نہیں پوچھا کہ اس کے پاس اپنے دعوے کا کیا ثبوت ہے۔قاضی فائز عیسیٰ نے بجا طور پر صراحت کی کہ جب اداروں کی ساکھ داغدار ہوتی ہے تو اس سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے بالکل درست طور پر واضح کیا کہ آزادی اظہار کی ضمانت دینے والا آئین پاکستان کا آرٹیکل19بے بنیاد الزامات لگانے کا لائسنس نہیں دیتا۔ملک کے چیف جسٹس پر بلا ثبوت الزام تراشی اور کسی چھان پھٹک کے بغیر اس کی میڈیا پر تشہیر سے یہ امر پوری طرح عیاں ہے کہ ایک عام شہری ، پگڑی اچھالنے کی کھلی چھوٹ کے اس مکروہ کلچر کی وجہ سے اپنی عزت آبرو کے معاملے میں کس قدرغیر محفوظ ہے۔اور عام شہری ہی کیا ہمارے منتخب ایوان بھی برسوں سے حکومت اور اپوزیشن کے معرکوں میں ایک دوسرے کے خلاف کسی ثبوت کے بغیر لگائے گئے گھناؤنے الزامات کے نعروں سے گونج رہے ہیں اور یوں پوری دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے۔ ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں میں ایسے مناظر کیوں عام نہیں؟ سیاسی اور سماجی کلچر میں شائستگی اور ذمہ داری کی روش عام ہونے کے علاوہ اس کا اہم ترین سبب ہتک عزت کے سخت قوانین ہیں جن کے ذریعے سے متاثرہ شخص کیلئے فوری ازالہ حیثیت عرفی بسہولت ممکن ہے۔پاکستان کو بھی بلا ثبوت الزام تراشی کے کلچر سے پاک کرنا ہماری نہایت اہم قومی ضرورت ہے۔ معاشرے سے منافرت ، انتشار اور تفریق و تقسیم کا خاتمہ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمارا دین بھی بلاثبوت الزام تراشی یعنی بہتان کو سخت جرم قرار دیتا ہے اور مختلف نوعیت کے بے بنیاد الزامات کی نہایت سخت سزائیں شریعت نے مقرر کی ہیں ۔ لہٰذا عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی نئی پارلیمنٹ کو بلاثبوت الزام تراشی کے جرم کے خلاف ایسی قانون سازی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنا چاہئے جو اس غیرذمے دارانہ طرزعمل کی مکمل حوصلہ شکنی کا ذریعہ بنے ۔ الزام لگانے والےکیلئے ساتھ ہی ثبوت فراہم کرنا بھی لازمی قرار دیا جانا چاہئے جبکہ متاثرہ فرد کی داد رسی کیلئے ہتک عزت کے دعووں پر فوری اور تیزرفتار عدالتی کارروائی کو یقینی بنایا جانا چاہئے اور جرم ثابت نہ ہونے پر الزام لگانے والے کو معافی طلبی کا پابند کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر بھاری جرمانہ بھی عائد کیاجانا چاہئے۔ روایتی اور سوشل میڈیا دونوں کیلئے بھی یہ قانون بنایا جانا اور اس پر سختی سے عمل کرایا جانا چاہئے کہ الزام لگانے والے سے ثبوت بھی طلب کیا جائے اور جس پر الزام لگایا جارہا ہے اس کا موقف بھی لازماً معلوم کرلیاجائے اور کوئی بھی خبر اس اہتمام کے بغیر منظر عام پر نہ لائی جائے کیونکہ بقول چیف جسٹس آزادی اظہار کا حق دینے والا آئین کا آرٹیکل19 بلاثبوت الزام تراشی کا لائسنس نہیں ہے۔

تازہ ترین